Saturday, 20 December 2025

قید جھرنوں کی طرح سخت زمینوں میں رہے

 قید جھرنوں کی طرح سخت زمینوں میں رہے

راز کی بات کوئی جس طرح سینوں میں رہے

آنکھ محروم بصارت ہی سہی، دور نہ جا

شمع روشن کوئی احساس کے زینوں میں رہے

ایک اک موج تھی سہمی ہوئی جانے کیوں کر

کتنے طوفان تھے کل رات جو سینوں میں رہے

بے کراں نیلے سمندر سی وہ دل کش آنکھیں

قتل کرنے کا یہ فن کیوں نہ حسینوں میں رہے

سر جھکایا نہ جہانگیر ہم اہلِ دل نے

گو کہ سجدے کئی بے تاب جبینوں میں رہے


علیم جہانگیر

No comments:

Post a Comment