قید جھرنوں کی طرح سخت زمینوں میں رہے
راز کی بات کوئی جس طرح سینوں میں رہے
آنکھ محروم بصارت ہی سہی، دور نہ جا
شمع روشن کوئی احساس کے زینوں میں رہے
ایک اک موج تھی سہمی ہوئی جانے کیوں کر
کتنے طوفان تھے کل رات جو سینوں میں رہے
بے کراں نیلے سمندر سی وہ دل کش آنکھیں
قتل کرنے کا یہ فن کیوں نہ حسینوں میں رہے
سر جھکایا نہ جہانگیر ہم اہلِ دل نے
گو کہ سجدے کئی بے تاب جبینوں میں رہے
علیم جہانگیر
No comments:
Post a Comment