Sunday, 28 December 2025

راہ حیات میں دل ویراں دہائی دے

 راہ حیات میں دل ویراں دہائی دے

دشمن کو بھی خدا نہ غم آشنائی دے

میں صاحب قلم ہوں مجھے اے شعور فن

آئے نہ جو گرفت میں ایسی کلائی دے

دنیا فریب رشتۂ باہم نہ دے مجھے

جو بھائی چارگی کا ہو پیکر وہ بھائی دے

میں اپنا ہاتھ اپنے لہو میں ڈبو نہ لوں

جب تک وہ میرے ہاتھ میں دست حنائی دے

خنجر ہے جس کے ہاتھ میں پتھر ہے جس کا دل

کیا اس کے سامنے کوئی اپنی صفائی دے

جس پر مرے لہو نے سجایا تھا نقش دل

اے کاش پھر مجھے وہ ہتھیلی دکھائی دے

اس تازہ کربلا میں بھی یا رب دعا یہ ہے

ایثار کو نشیب وفا کو ترائی دے

دوری قرین مصلحت وقت ہے اگر

قربت کے نام پر مجھے داغ جدائی دے

صحن چمن میں گوش بر آواز ہے صبا

شاید دل شمیم کی دھڑکن سنائی دے


صبا نقوی

No comments:

Post a Comment