جلوہ ہے وہ کہ تاب نظر تک نہیں رہی
دیکھا اسے تو اسے تو اپنی خبر تک نہیں رہی
احساس پر گراں رہا احساس کا طلسم
یہ عمر کی تکان سفر تک نہیں رہی
جن پر تمہارے آنے سے کھلتے رہے گلاب
اب دل میں ایسی راہگزر تک نہیں رہی
اک دن وہ گھر سے نکلے نہیں سیر کے لیے
اب خواہش نمو میں سحر تک نہیں رہی
جس کو چھوا تھا ہم نے کڑی دھوپ جھیل کر
وہ چھاؤں بھی تو زیر شجر تک نہیں رہی
خوش ہے وہ آنکھ کار مسیحائی چھوڑ کر
تاثیر اس کی زخم جگر تک نہیں رہی
تم کیسے موسموں میں ہمیں ملنے آئے ہو
پیڑوں پہ اب تو شاخِ ثمر تک نہیں رہی
فرحت میں دستکیں لیے ہاتھوں میں رہ گیا
میری رسائی اب تِرے در تک نہیں رہی
محمد فرحت عباس
No comments:
Post a Comment