Friday, 12 December 2025

جلوہ ہے وہ کہ تاب نظر تک نہیں رہی

 جلوہ ہے وہ کہ تاب نظر تک نہیں رہی

دیکھا اسے تو اسے تو اپنی خبر تک نہیں رہی

احساس پر گراں رہا احساس کا طلسم

یہ عمر کی تکان سفر تک نہیں رہی

جن پر تمہارے آنے سے کھلتے رہے گلاب

اب دل میں ایسی راہگزر تک نہیں رہی

اک دن وہ گھر سے نکلے نہیں سیر کے لیے

اب خواہش نمو میں سحر تک نہیں رہی

جس کو چھوا تھا ہم نے کڑی دھوپ جھیل کر

وہ چھاؤں بھی تو زیر شجر تک نہیں رہی

خوش ہے وہ آنکھ کار مسیحائی چھوڑ کر

تاثیر اس کی زخم جگر تک نہیں رہی

تم کیسے موسموں میں ہمیں ملنے آئے ہو

پیڑوں پہ اب تو شاخِ ثمر تک نہیں رہی

فرحت میں دستکیں لیے ہاتھوں میں رہ گیا

میری رسائی اب تِرے در تک نہیں رہی


محمد فرحت عباس

No comments:

Post a Comment