Friday, 12 December 2025

حسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا

 حُسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا

صرف اک حُسنِ نظر ہے تِرے دیوانے کا

عشق رُسوا بھی ہے مجبور بھی دیوانہ بھی

اور ابھی خیر سے آغاز ہے افسانے کا

کار فرما تِرے جلوؤں کی کشش ہے ورنہ

شمع سے دُور کا رشتہ نہیں پروانے کا

یہی تکمیل محبت کی ہے منزل شاید

ہوش اپنا مجھے باقی ہے نہ بیگانے کا

کون سمجھے گا مِرے دردِ محبت کو یہاں

ہے حقیقت مگر انداز ہے افسانے کا

حُسن خُود صرف تماشا ہو دو عالم کیا ہے

پردہ اُٹھے تو سہی عشق کے دیوانے کا

صبح کی چھاؤں میں چونکے تو ہیں غافل لیکن

شمع کا سوگ کہ ماتم کریں پروانے کا

تم نے برباد کیا بھی تو اس احسان کے ساتھ

جیسے مُدت سے مجھے شوق تھا مِٹ جانے کا

دشت غربت سے پلٹتا ہوں میں جب سُوئے وطن

پوچھ لیتا ہوں نشاں برق سے کاشانے کا

جھلملاتے ہوئے تاروں پہ یہ ہوتا ہے گماں

یہ بھی اک رنگ ہے گویا مِرے افسانے کا

اہل مے خانہ لیے پھرتے ہیں آنکھوں میں ادیب

ریزہ ریزہ مِرے ٹُوٹے ہوئے پیمانے کا


ادیب مالیگانوی

محمد بشیر

No comments:

Post a Comment