لوگ جب اپنی حقیقت جاننے لگ جائیں گے
زندگی سے زندگی کو مانگنے لگ جائیں گے
دور کرئیے آستینوں سے انہیں ورنہ ضرور
ایک دن یہ سانپ سر پے ناچنے لگ جائیں گے
ریت ہو یا راکھ ہو برباد مت کرئیے اسے
کیا پتہ کب لوگ ان کو پھانکنے لگ جائیں گے
اس زمانہ کا چلن بدلے گا اس دن دیکھنا
آگ جب ہم مٹھیوں میں باندھنے لگ جائیں گے
پیٹھ کے کوبڑ کہاں لے جائیں گے وہ دوستو
آئینوں کے سامنے جب آئینے لگ جائیں گے
کیا کریں ذکر وفا پیوش اب اس دور میں
ہے یہ ممکن لوگ بغلیں جھانکنے لگ جائیں گے
پیوش اوستھی
No comments:
Post a Comment