ہوتی ہے مجھ پہ ان کی عنایت کبھی کبھی
تاثیر جب دکھاتی ہے الفت کبھی کبھی
حاصل ہوئی ہے نور سے ظلمت کبھی کبھی
ہے ان کے شکریے میں شکایت کبھی کبھی
اے روشنیٔ طبع تو بر من بلا شدی
ذلت نصیب ہوتی ہے شہرت کبھی کبھی
غیروں سے التفات تو اپنوں سے بے رخی
بے جا رہی ہے ان کی مروت کبھی کبھی
رنج و خوشی کا دہر نے دیکھا ہے امتزاج
ہوتی ہے قہقہوں سے بھی رقت کبھی کبھی
سچ ہے مزاج یار تلون پسند ہے
الفت کبھی کبھی ہے عداوت کبھی کبھی
ثاقب کا حال زار وہ سنتے ہی آئے ہیں
مژدہ ہے وصل کا شب فرقت کبھی کبھی
ثاقب عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment