Sunday, 14 December 2025

ہوتی ہے مجھ پہ ان کی عنایت کبھی کبھی

 ہوتی ہے مجھ پہ ان کی عنایت کبھی کبھی

تاثیر جب دکھاتی ہے الفت کبھی کبھی

حاصل ہوئی ہے نور سے ظلمت کبھی کبھی

ہے ان کے شکریے میں شکایت کبھی کبھی

اے روشنیٔ طبع تو بر من بلا شدی

ذلت نصیب ہوتی ہے شہرت کبھی کبھی

غیروں سے التفات تو اپنوں سے بے رخی

بے جا رہی ہے ان کی مروت کبھی کبھی

رنج و خوشی کا دہر نے دیکھا ہے امتزاج

ہوتی ہے قہقہوں سے بھی رقت کبھی کبھی

سچ ہے مزاج یار تلون پسند ہے

الفت کبھی کبھی ہے عداوت کبھی کبھی

ثاقب کا حال زار وہ سنتے ہی آئے ہیں

مژدہ ہے وصل کا شب فرقت کبھی کبھی


ثاقب عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment