زلف و رسن کا اب بھی ہے اُلجھاؤ دُور تک
سر کو ہتھیلیوں لیے آؤ، دور تک
دشتِ وفا میں گُونجتی پھرتی ہے اک صدا
خوں میں نہاؤ، اور چلے جاؤ دور تک
ہم بھی بڑھا رہے ہیں شبِ غم کی عمر کو
تم بھی سیاہ زُلفوں کو سُلجھاؤ دور تک
اک لمحہ اس نگاہ سے جب بات ہو گئی
دل میں اتر گیا ہے کوئی گھاؤ دور تک
آ جائیں گی گئی ہوئی خوشبو کی آہٹیں
خاموشئ خیال کو پھیلاؤ دور تک
اس زندگی کا راز بھی مل جائے گا کبھی
ہمراہ اہلِ غم کے چلے آؤ دور تک
ڈاکٹر ذکاءالدین شایاں
No comments:
Post a Comment