فرعون کی انگشت پر تقدیرِ امم ہے
ہاتھوں میں ابوجہل کے قرطاس و قلم ہے
شداد کے قدموں میں گلستانِ اِرم ہے
سُقراط کی تقدیر میں پیمانۂ سَم ہے
آتا نہیں ہر بار ابابیل کا لشکر
اب دستِ گنہگار میں ناموسِ حرم ہے
صف بستہ ہے اولادِ براہیمؑ بھی در پر
نمرود سے کس کس کو تقضائے کرم ہے
جو نعرہ بلب گھر سے نکلتے تھے دمِ صبح
اب نوحہ گری ان کا مداوائے الم ہے
ہم نے تو سِپر ڈال دی میدان میں کب کی
ہاتھوں میں رضا ایک شکستہ سا قلم ہے
موسیٰ رضا
No comments:
Post a Comment