جب کبھی ترکِ غمِ دل کا سوال آتا ہے
ریت پر نام تھا میرا بھی خیال آتا ہے
موجِ طوفان اٹھی بہہ چلے خوابوں کے صدف
پھر برستے ہوئے بادل پہ زوال آتا ہے
اب مِرے خواب کے ہمراہ وہی یادیں ہیں
جن کو معلوم نہ تھا شیشے میں بال آتا ہے
جب سمٹ آیا ہے خود جسم ہی پیشانی پر
کیوں در دل پہ دبے پاؤں ملال آتا ہے
کیا تِرا ذہن بھی لمحوں کے سفر میں ہو گا
تیری بارات میں رہ رہ کے خیال آتا ہے
کوئی ایسا بھی ہے جو نقش بہ دیوار نہ ہو
اب یہ تعمیر کی راہوں میں سوال آتا ہے
گھنٹیاں وقت کی بجتی ہیں مسلسل امید
فاصلے کہتے ہیں اک اور بھی سال آتا ہے
ڈاکٹر علی عباس امید
No comments:
Post a Comment