ضبط ساکت جھیل کا اب توڑ دے ایسے کہ بس
خامشی بھی چیخ اٹھے اور پھر بولے کہ بس
بعد میں آرام سے پھر وقت نے یکجا کِیا
ہم تِری آغوش میں آئے تو یوں بکھرے کہ بس
طاق پر ہم نے اٹھا کر رکھ دیا امید کو
تیس پر دس اور دن پوچھو نہ کیا گزرے کہ بس
آگ سارے گھر میں تھی، باہر تھے ہم حیران سے
دم لگا کر آنچ پر جذبات کچھ رکھے کہ بس
ریشمی دھاگے کے ہم دونوں کنارے تھے کبھی
ریشہ ریشہ ہو کے ہم اس طرح سے ٹوٹے کہ بس
ٹوٹتے رشتوں سے بڑھ کر رنج تھا اس بات کا
درمیاں کچھ دوست تھے اور دوست بھی ایسے کہ بس
رینو نیر
No comments:
Post a Comment