Wednesday, 10 December 2025

آ بتاؤں میں تجھے حالت ہے کیا مزدور کی

 مزدور


آ بتاؤں میں تجھے حالت ہے کیا مزدور کی

آ دکھاؤں میں تجھے پُر درد اس کی زندگی

کس طرح اس کو رہا سرمایہ داری سے نیاز

کس طرح مزدور نے کی محفلوں میں خواجگی

کس طرح انسان کی وہ ٹھوکریں کھاتا رہا

جانور کی سی بسر کی اس نے کیونکر زندگی

آ بتاؤں کس طرح آلام وہ سہتا رہا

آ دکھاؤں آج اس کے تیوروں کی برہمی

اس قدر ناقابلِ برداشت تھا درد و الم

چیخ اٹھا تھا غمِ ایام سے مزدور بھی

آج ہیں مزدور کی طاقت کے چرچے ہر طرف

آج ہے مزدور اک قوت یہاں بڑھتی رہی

غیر ممکن ہے کوئی ٹھکرا سکے اس کا وجود

غیر ممکن ہے کوئی اس سے کرے پہلو تہی

غیر ممکن ہے رہے اس سے زمانہ بے خبر

غیر ممکن ہے کہ اب مزدور ہو جائے کبھی

ہر نئی تحریک میں ہے یہ شریکِ لازمی

آج ہے مخدومیت اندوز ذہن خادمی


محمد صادق ضیا

No comments:

Post a Comment