جب ساتھ میں چلنا ہی نہیں ایک قدم اور
پھر سب کو بتا دیجیے تم اور ہو ہم اور
ڈرتے نہیں طوفانوں سے سیلابوں سے ہم لوگ
جس درجہ ستم ہو گا یہ اٹھے گا قلم اور
آسانی سے دیتے نہیں ہم سب کو دعائیں
ظالم سے کہو؛ کرتا رہے ہم پہ ستم اور
یہ راستے ہیں عشق کے آساں نہ سمجھنا
چلیے گا سنبھل کر ابھی بہکیں گے قدم اور
چہرے پہ تو دونوں کے ہی لکھا ہے اداسی
یہ بات مگر سچ ہے کہ ہم اور ہیں غم اور
دہلیز پہ آنکھوں کی سجا رکھے ہیں آنسو
اس دل پہ ابھی ہونے ہیں کچھ درد رقم اور
عبید نجیب آبادی
No comments:
Post a Comment