Thursday, 4 December 2025

قاتل سے بھی منصف نے رہ و رسم بڑھا لی

 قاتل سے بھی منصف نے رہ و رسم بڑھا لی

اب عدل ہے بکواس تو انصاف ہے گالی

اِس دور نے لفظوں کے بدل ڈالے معانی

نیکی ہے تجارت تو شرافت ہے دلالی 

جسموں سے اتر جاتی ہیں دفتر کی تکانیں

میزوں پہ سرِ شام ہنسے چائے کی پیالی

جاں کیف خیالوں کی ہے تجسیم، ترا جسم

آنکھیں ہیں غزالی تِرے ابرو ہیں ہلالی 

مندر میں جو آئی ہے پجارن ہے کہ دیوی

ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے پھولوں کی وہ تھالی 

آکاش کا تارا ہے کہ پیشانی کا جھومر

ہے چا ند کا ٹکڑا کہ تِرے کان کی بالی

لوگو ں نے بھی سمجھا مجھے اغیارکی صف کا

تم نے  بھی توجہ کی نظر مجھ پہ نہ ڈالی 

سناٹے فضاؤں کے ابھی چیخ  اٹھیں گے

ہونٹوں سے اگر تم نے کوئی بات اچھالی 

تاریخ میں تہذیب کی ہے سب سے بڑی موت

اِس عہد میں آزادئ نسواں کی بحالی 

مسرور یہ سارا ہی جہاں اپنا وطن ہے

ہم شرقی و غربی نہ جنوبی نہ شمالی


انس مسرور

No comments:

Post a Comment