بندگی کرنے کے آداب الگ ہوتے ہیں
عشق کے منبر و محراب الگ ہوتے ہیں
دل کا آزار کبھی جان نہیں لے سکتا
جان سے جانے کے اسباب الگ ہوتے ہیں
عشق اندیشۂ عبرت سے نکلتا ہی نہیں
دل الگ ہوتا ہے، اعصاب الگ ہوتے ہیں
دھیان رکھیو کہ تری زلف سے نکلی ہے سحر
ایسے ماحول کے آداب الگ ہوتے ہیں
خیر ہو تیرے جنوں کی میں وہاں آپہنچا
حسنِ وحشت سے جہاں خواب الگ ہوتے ہیں
خوف تو ایک علامت ہے خرد کی ورنہ
ضبطِ فریاد کے اسباب الگ ہوتے ہیں
میں نے جب ڈوبنا چاہا تو صدا آئی کہ بس
اس جگہ پاؤں سے گرداب الگ ہوتے ہیں
اب تو ہر روز بدل جاتی ہے نسبت اس سے
اب تو ہر رات مرے خواب الگ ہوتے ہیں
ایک سے ہوتے ہیں الفاظ خطوں میں لیکن
اس کی تحریر میں اعراب الگ ہوتے ہیں
کام پر جائیے محسن کہ دیہاڑی نہ کٹے
تنگ دستی ہو تو احباب الگ ہوتے ہیں
محسن اسرار
No comments:
Post a Comment