Monday, 8 December 2025

سازش میں میرے قتل کی وہ مبتلا تو ہے

 سازش میں میرے قتل کی وہ مبتلا تو ہے

مجھ کو خوشی یہ ہے وہ مجھے سوچتا تو ہے

اچھا نہیں برا ہی سہی مانتا تو ہے

اس کے تخیلات میں میری جگہ تو ہے  

اقبال، مال، عیش حکومت نہیں رہی

لیکن ہمارے پاس ہماری انا تو ہے

قصوں کہانیوں میں کتابوں میں ہی سہی

اب بھی ہماری دنیا میں باقی وفا تو ہے

آنکھوں کو ہی شعور سماعت نہیں رہا

ورنہ ہر ایک چہرہ یہاں بولتا تو ہے

دو چار جس سے ہوتا ہے شاعر چھپائے لاکھ

وہ کرب شاعری سے کہیں جھانکتا تو ہے

چاہی تھی جتنی داد نہیں دی تو کیا ہوا

لیکن سعادت آپ نے مجھ کو سنا تو ہے


سعادت عابدی

سید سعادت علی ہاشمی

No comments:

Post a Comment