سازش میں میرے قتل کی وہ مبتلا تو ہے
مجھ کو خوشی یہ ہے وہ مجھے سوچتا تو ہے
اچھا نہیں برا ہی سہی مانتا تو ہے
اس کے تخیلات میں میری جگہ تو ہے
اقبال، مال، عیش حکومت نہیں رہی
لیکن ہمارے پاس ہماری انا تو ہے
قصوں کہانیوں میں کتابوں میں ہی سہی
اب بھی ہماری دنیا میں باقی وفا تو ہے
آنکھوں کو ہی شعور سماعت نہیں رہا
ورنہ ہر ایک چہرہ یہاں بولتا تو ہے
دو چار جس سے ہوتا ہے شاعر چھپائے لاکھ
وہ کرب شاعری سے کہیں جھانکتا تو ہے
چاہی تھی جتنی داد نہیں دی تو کیا ہوا
لیکن سعادت آپ نے مجھ کو سنا تو ہے
سعادت عابدی
سید سعادت علی ہاشمی
No comments:
Post a Comment