Monday, 8 December 2025

دم گھٹا جاتا ہے آئے کس طرح تازہ ہوا

 دم گھٹا جاتا ہے آئے کس طرح تازہ ہوا

کر گئی ہے بند آج ایک ایک دروازہ ہوا

کون سی آنکھوں سے دیکھوں زندگی کی بے بسی

چہرہ چہرہ مل رہی ہے موت کا غازہ ہوا

قہر پیہم ڈھا رہی ہے خوشبوؤں کے شہر میں

دیکھنا تم ایک دن بھگتے گی خمیازہ ہوا

دھوپ زاروں کو کوئی تاراج کر سکتا نہیں

کیا بکھیرے گی بھلا سورج کا شیرازہ ہوا

زور پھر کاٹا تِرا میرے پر پرواز نے

پھر غلط ثابت ہوا ہے تیرا اندازہ ہوا

آؤ اس کے قلب میں جا کر دیے روشن کریں

کس رہی ہے دیر سے ہم سب پر آوازہ ہوا

روزنوں پر مکڑیوں کے جال کی چادر تنی

گھر میں جوہر کیسے آئے صاف اور تازہ ہوا


مسرور جوہر

No comments:

Post a Comment