دم گھٹا جاتا ہے آئے کس طرح تازہ ہوا
کر گئی ہے بند آج ایک ایک دروازہ ہوا
کون سی آنکھوں سے دیکھوں زندگی کی بے بسی
چہرہ چہرہ مل رہی ہے موت کا غازہ ہوا
قہر پیہم ڈھا رہی ہے خوشبوؤں کے شہر میں
دیکھنا تم ایک دن بھگتے گی خمیازہ ہوا
دھوپ زاروں کو کوئی تاراج کر سکتا نہیں
کیا بکھیرے گی بھلا سورج کا شیرازہ ہوا
زور پھر کاٹا تِرا میرے پر پرواز نے
پھر غلط ثابت ہوا ہے تیرا اندازہ ہوا
آؤ اس کے قلب میں جا کر دیے روشن کریں
کس رہی ہے دیر سے ہم سب پر آوازہ ہوا
روزنوں پر مکڑیوں کے جال کی چادر تنی
گھر میں جوہر کیسے آئے صاف اور تازہ ہوا
مسرور جوہر
No comments:
Post a Comment