نفرت کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے آ
آ شمع محبت کو جلانے کے لیے آ
بے باک ہوا جاتا ہے اب درد جدائی
ابھرے ہوئے زخموں کو دبانے کے لیے آ
کب تک میں سنبھالوں تیری یادوں کی امانت
یہ بارِ گراں دل سے ہٹانے کے لیے آ
یادوں کے دریچوں میں تِرا روپ ہے لیکن
اب ہجر کا احساس بھلانے کے لیے آ
احساس کے صحرا کی اداسی نہیں جاتی
جھرنوں کی طرح گیت سنانے کے لیے آ
اک تیری محبت کا محافظ ہے مِرا دل
خود اپنے لئے مجھ کو بچانے کے لیے آ
مجھ کو تو ہے منظور تِرے پیار میں ارشد
امرت نہ سہی، زہر پلانے کے لیے آ
ارشد مینا نگری
No comments:
Post a Comment