آرزو کا سفر
اک ستارہ
تِری سرمئی آنکھ میں
کہکشاؤں کی جھِلمل میں چھپنے لگا
صبح کی روشنی کی پھوار
میرے دل پر گِری
آسمانی صحیفوں کی قرأت کی آ واز آنے لگی
یہ سماعت مِرے دل پہ اک بوجھ ہے
میں ازل سے ابد سے مخاطب نہیں
میں کسی آسمانی روایت کا کاتب نہیں
میں تو نکلا تھا
اُس سرمئی آنکھ کو ڈھونڈنے
جو مِرے دل میں روشن رہے
توصیف خواجہ
No comments:
Post a Comment