Saturday, 6 December 2025

نشان زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی

 نشان زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی

لہو میں ظلمت شب انگلیاں بھگونے لگی

ہوا وہ جشن کہ نیزے بلند ہونے لگے

نیام تیغ کی خنجر کے ساتھ سونے لگی

جہاں میں دوڑ کے پہنچا تھا وہ گھنیری چھاؤں

ذرا سی دیر میں زار و قطار رونے لگی

ندی ڈباؤ نہ تھی ڈوبنا پڑا لیکن

کنارے پہنچا تو شرمندگی ڈبونے لگی

سب اپنی پیاس بجھانے میں محو تھے ہمہ تن

ہوا یہ پھر کہ ہوا شعلہ خیز ہونے لگی

بڑھائے ہاتھ مدد کو دراز دستوں نے

تو اپنا بوجھ وہ چیونٹی کی طرح ڈھونے لگی

کچھ اور سرخرو ہو کر اٹھے وہ مقتل سے

گھٹا بھی اٹھی تو دامن کے داغ دھونے لگی

وہ پیرزن جسے کانٹے نکالنے تھے خلش

وہ ساحرہ کی طرح سوئیاں چبھونے لگی


بدر عالم خلش

No comments:

Post a Comment