Tuesday, 9 December 2025

ہر روز ایک آفت ہر شب نئی مصیبت

 رقص بسمل (اقتباس)


ہر روز ایک آفت ہر شب نئی مصیبت

دل میں طپش ہے پنہاں اور بیقرار جی ہے

ہمدم ہیں رنج و کلفت، ہمدرد بے کسی ہے

مل جائے گی مجھے اب مر مٹنے ہی میں راحت

کب تک یہ ہر گھڑی کے صدمے سہے طبیعت

ہر عضو پر الم ہے رگ رگ میں بے کلی ہے

اے عشق تیرے ہاتھوں مجھ پر بری بنی ہے

یہ لحظہ زندگی کا مجھ کو ہے اک قیامت

اس سے مجھے ملا کر پھر ہائے کیوں چھوڑایا

بجلی نہ پہلے میرے خرمن پہ کیوں گرائی

پہلے مجھے ہنسا کر پھر اتنا کیوں رُلایا

کیوں یہ نہ کہہ دیا تھا؛ ہونے کو ہے جدائی

بیٹھے بٹھائے جیسا اس نے مجھے ستایا

خود عشق کو کسی سے یا رب ہو آشنائی


عظیم الدین احمد

No comments:

Post a Comment