Tuesday, 9 December 2025

زندگی میری بظاہر اک شکستہ ساز ہے

 زندگی میری بظاہر اک شکستہ ساز ہے

سننے والوں کے لیے آواز ہی آواز ہے

کون سی منزل پہ آ کر تھم گیا دردِ جگر

آج دل کی انجمن محرومِ سوز و ساز ہے

غالباً ٹوٹا کسی مظلوم کا تارِ نفس

دور تک آواز ہے آواز ہی آواز ہے

ہائے کس کس کو سرِ بازار رسوا کر دیا

عشق کا اعجاز ہے یا حسن کا اعجاز ہے

کل تلک اہلِ جنوں سے مشورہ کرتے رہے

آج اہلِ ہوش کو اپنی روش پر ناز ہے

یوں تو نیر! جیسے کتنے ہی غزل گو ہیں مگر

پھر بھی تیرے شہر میں اک بلبلِ شیراز ہے


صلاح الدین نیر

No comments:

Post a Comment