زندگی میری بظاہر اک شکستہ ساز ہے
سننے والوں کے لیے آواز ہی آواز ہے
کون سی منزل پہ آ کر تھم گیا دردِ جگر
آج دل کی انجمن محرومِ سوز و ساز ہے
غالباً ٹوٹا کسی مظلوم کا تارِ نفس
دور تک آواز ہے آواز ہی آواز ہے
ہائے کس کس کو سرِ بازار رسوا کر دیا
عشق کا اعجاز ہے یا حسن کا اعجاز ہے
کل تلک اہلِ جنوں سے مشورہ کرتے رہے
آج اہلِ ہوش کو اپنی روش پر ناز ہے
یوں تو نیر! جیسے کتنے ہی غزل گو ہیں مگر
پھر بھی تیرے شہر میں اک بلبلِ شیراز ہے
صلاح الدین نیر
No comments:
Post a Comment