Thursday, 4 December 2025

شیشہ صفت تھے آپ اور شیشہ صفت تھے ہم

 شیشہ صفت تھے آپ اور شیشہ صفت تھے ہم

بکھرے ہوئے سے آپ ہیں بکھرے ہوئے سے ہم

اس نے تھما دی ہاتھ میں اک بانسری ہمیں

پتھر اٹھا کے ہاتھ میں دینے لگے تھے ہم

موجود ہے تِری طرح وہ پاس بھی نہیں

کیسے کہیں یہ بات اب پاگل ہوا سے ہم

ہر شخص تھا تِری طرف تیری ہی بزم تھی

کس کو سناتے پھر ترے قصے جفا کے ہم

تیری کسی مراد کی خاطر مِرے رقیب

گِر جائیں آسمان سے ہیں وہ ستارے ہم


رینو نیر 

No comments:

Post a Comment