Wednesday, 10 December 2025

دشت کے اسرار سے پردہ اٹھا صحرا نورد

 دشت کے اسرار سے پردہ اٹھا صحرا نورد

آبلے پاؤں کے ہم کو بھی دکھا صحرا نورد

ریگ، طوفانوں، سرابوں، گرم ریتوں کی قسم

کچھ بھی اپنے دوستوں سے مت چھپا صحرا نورد

گھنٹیاں اونٹوں کی، نغمے ساربانوں کے سنے

کچھ نہ کچھ تو یاد ہو گا، آ سُنا صحرا نورد

جن کو صحرا کھا گیا ان قافلوں کی باقیات

دیکھ کر تجھ پر جو گزری وہ بتا صحرا نورد

کیا سُنے مرتے پرندوں، سُوکھتے پودوں کے بین

آ گلے مِل خود بھی رو مجھ کو رُلا صحرا نورد

روہی، تھل، دامان میں اک پیاس کی تو سانجھ ہے

اور بھی کچھ درد رشتے ہیں بتا صحرا نورد

ایک عشقِ خاص لاحق ہے تِرے عباس کو

دشت پیمائی اسے بھی اب کرا صحرا نورد


عباس برمانی

No comments:

Post a Comment