ہوتی ہے ان کی ہم پہ عنایت کبھی کبھی
آتی نظر ہے چاند سی صورت کبھی کبھی
غیروں کے مشورے کے لیے وقف رات دن
مجھ سے مگر ہے ملنے کی فرصت کبھی کبھی
غصہ میں ان کو دیکھ کے مجھ کو گماں ہوا
آتی ہے اس طرح بھی قیامت کبھی کبھی
وعدے وہ ہم سے توڑ کے غیروں کے ہو گئے
آتی تو ہو گی دل میں ندامت کبھی کبھی
دیدار ان کا چشم زدن میں ہوا تو ہے
تقدیر سے وہ آئی ہے ساعت کبھی کبھی
چھپ جانا ان کا شرم سے چلمن کی آڑ میں
بدنام یوں بھی کرتی ہے الفت کبھی کبھی
الفت پہ مرنے والوں پہ روتی ہے بیکسی
دیکھی ہے ہم نے ایسی بھی نیت کبھی کبھی
راہی! اب ان سے شکوۂ بے داد کر تو لو
ہوتی ہے دل جلوں کو شکایت کبھی کبھی
رشید راہی اٹاوی
No comments:
Post a Comment