Tuesday, 9 December 2025

ہوتی ہے ان کی ہم پہ عنایت کبھی کبھی

 ہوتی ہے ان کی ہم پہ عنایت کبھی کبھی

آتی نظر ہے چاند سی صورت کبھی کبھی

غیروں کے مشورے کے لیے وقف رات دن

مجھ سے مگر ہے ملنے کی فرصت کبھی کبھی

غصہ میں ان کو دیکھ کے مجھ کو گماں ہوا

آتی ہے اس طرح بھی قیامت کبھی کبھی

وعدے وہ ہم سے توڑ کے غیروں کے ہو گئے

آتی تو ہو گی دل میں ندامت کبھی کبھی

دیدار ان کا چشم زدن میں ہوا تو ہے

تقدیر سے وہ آئی ہے ساعت کبھی کبھی

چھپ جانا ان کا شرم سے چلمن کی آڑ میں

بدنام یوں بھی کرتی ہے الفت کبھی کبھی

الفت پہ مرنے والوں پہ روتی ہے بیکسی

دیکھی ہے ہم نے ایسی بھی نیت کبھی کبھی

راہی! اب ان سے شکوۂ بے داد کر تو لو

ہوتی ہے دل جلوں کو شکایت کبھی کبھی


رشید راہی اٹاوی

No comments:

Post a Comment