چرا لایا ہوں خود کا اپنا سایہ چھوڑ آیا ہوں
میں اُس کے آئینے میں اپنا چہرہ چھوڑ آیا ہوں
اب آنکھوں میں بسالے یا سپردِ آگ کر ڈالے
میں اُس کی ڈائری میں ایک سپنا چھوڑ آیا ہوں
اب آگے دیکھنا ہے زندگی کیا شکل دیتی ہے
میں چلتے چاک پہ خود کو ادھورا چھوڑ آیا ہوں
تُو میرا حق نہ دے محنت کے بدلے بھیک ہی دے دے
میں اپنے گھر میں سب بچوں کو بھوکا چھوڑ آیا ہوں
اسی ڈر سے کہ یوں میری انا نہ ساتھ مر جائے
میں اپنے آخری دشمن کو زندہ چھوڑ آیا ہوں
مِرے بچوں کو آپس میں یہی تو بانٹنا ہو گا
پسِ پردہ جو نفرت کا اثاثہ چھوڑ آیا ہوں
یہ لغزش ہو گئی کل میکدے سے بے خیالی میں
کسی کا غم اٹھا لایا ہوں‘ اپنا چھوڑ آیا ہوں
اٹھا لاتا تو بخشش کا وسیلہ بن گیا ہوتا
میں سجدہ میں جو اظہر ایک سجدہ چھوڑ آیا ہوں
اظہر کمال
No comments:
Post a Comment