ٹکرا رہے ہیں موج فریب جہاں سے ہم
ایسے میں تجھ کو لائیں جوانی کہاں سے ہم
مرہم کے باوجود بھی بھرتے نہیں ہیں زخم
واقف ہیں نشتر کرم دوستاں سے ہم
اللہ رے بے خودی کہ ہمیں پوچھنا پڑا
جائیں کدھر کو آئے ہیں یارو کہاں سے ہم
اب دیکھنی ہیں اہل کرم کی نوازشیں
اٹھ تو گئے ہیں محفل پیر مغاں سے ہم
دل ہو گا اور ماتم بربادیٔ چمن
الجھے نہ آج اگر روش باغباں سے ہم
بسمل یہ اتفاق بھی کتنا عجیب ہے
پہنچے ہیں ہر یقین کی تہہ تک گماں سے ہم
بسمل آغائی
عبدالرحمٰن خان
No comments:
Post a Comment