Saturday, 6 December 2025

ٹکرا رہے ہیں موج فریب جہاں سے ہم

 ٹکرا رہے ہیں موج فریب جہاں سے ہم

ایسے میں تجھ کو لائیں جوانی کہاں سے ہم

مرہم کے باوجود بھی بھرتے نہیں ہیں زخم

واقف ہیں نشتر کرم دوستاں سے ہم

اللہ رے بے خودی کہ ہمیں پوچھنا پڑا 

جائیں کدھر کو آئے ہیں یارو کہاں سے ہم 

اب دیکھنی ہیں اہل کرم کی نوازشیں 

اٹھ تو گئے ہیں محفل پیر مغاں سے ہم 

دل ہو گا اور ماتم بربادیٔ چمن 

الجھے نہ آج اگر روش باغباں سے ہم 

بسمل یہ اتفاق بھی کتنا عجیب ہے 

پہنچے ہیں ہر یقین کی تہہ تک گماں سے ہم 


بسمل آغائی

عبدالرحمٰن خان

No comments:

Post a Comment