تھک ہار کے بیٹھا ہوں کوئی آس نہیں ہے
یہ دور کسی طور مجھے راس نہیں ہے
کھلتے تو ہیں پھولوں کی طرح زخمِ جگر بھی
پھولوں کی طرح ان میں مگر باس نہیں ہے
تاریک فضاؤں میں کرن پھوٹ رہی ہے
صد شکر نئی فکر میں اب یاس نہیں ہے
بس ایک ہی ٹھوکر سے سنبھل جاتی ہیں قومیں
مٹ جاتی ہے جس قوم میں احساس نہیں ہے
بربط مِرا جینا تو غریبوں کے لیے ہے
آسودگئ ذات مجھے راس نہیں ہے
بربط تونسوی
No comments:
Post a Comment