مجھے بنانے میں سب کا خرچہ لگا ہوا ہے
کسی کا لوہا، کسی کا تانبا لگا ہوا ہے
نہیں ہے اپنا کوئی بھی دنیا جہاں میں لیکن
کسی کو کھونے کا مجھ کو خدشہ لگا ہوا ہے
کبھی تھی ٹھنڈی زمین سائے سے جن کے لوگو
ہمارا ایسے شجر سے شجرہ لگا ہوا ہے
مجھے بنانے میں سب کا خرچہ لگا ہوا ہے
کسی کا لوہا، کسی کا تانبا لگا ہوا ہے
نہیں ہے اپنا کوئی بھی دنیا جہاں میں لیکن
کسی کو کھونے کا مجھ کو خدشہ لگا ہوا ہے
کبھی تھی ٹھنڈی زمین سائے سے جن کے لوگو
ہمارا ایسے شجر سے شجرہ لگا ہوا ہے
کسی کے پیار میں ڈُوبا ہوا ہے
تبھی وہ گاؤں میں رُسوا ہوا ہے
سبھی پیاسے کھڑے ہیں ساحلوں پر
یہ دریا کس لیے ٹھہرا ہوا ہے
بشر کی شکل میں ہے اک درندہ
تبھی تو ہر کوئی سہما ہوا ہے
اک بند ہو گیا ہے تو کھولیں گے باب اور
ابھریں گے اپنی رات سے سو آفتاب اور
روحِ بشر غلام ہے کوئی بھی ہو نظام
اب بھی جہاں کو چاہئے کچھ انقلاب اور
جب بھی بڑھی ہے تشنگی ملک و عوام کی
چھلکی ہے قصرِ شاہ میں تھوڑی شراب اور
دیکھنے والوں کی دھڑکن میں خلل پڑتا ہے
یہ جو گالوں میں تِرے یار! کنول پڑتا ہے
مجھ میں ہمت نہیں ہوتی سو تجھے ملنے کو
میرے اندر سے کوئی اور نکل پڑتا ہے
ایک رستہ مجھے منزل کی طرف جانے سے
ٹوکتا ہے تو کبھی ساتھ ہی چل پڑتا ہے
کس سے رونا روئے کوئی اپنے ٹوٹے خوابوں کا
کب تک زندہ رہ لے کوئی بوجھ اٹھائے وعدوں کا
کل کی فکر مسلط سب پر کل جانے کیا ہو جائے
سر پر بوجھ لیے پھرتے ہو کیوں کل کے اندازوں کا
سہنے والے لوگ بہت ہیں کہنے والا کوئی نہیں
دیکھو کیسے کال پڑا ہے بستی میں آوازوں کا
حروف ابھرے ہوئے ہیں اُداس چہروں پر
ہے کس کتاب کا یہ اقتباس چہروں پر
عجیب قسم کا موسم ادھر سے گزرا ہے
ہر ایک سمت برستی ہے یاس چہروں پر
انہیں غموں کو چھپانے کا ہے سلیقہ جو
ہنسی سجائے ہوئے ہیں اُداس چہروں پر
اس نے موہوم سے کچھ عیب اچھالے میرے
کر سکا پر نہ وہ کمزور حوالے میرے
کون ہوتا ہے جدا اپنے کسی محسن سے
اب کہاں جائیں گے جو درد ہیں پالے میرے
عمر بھر کی یہ کمائی ہیں اگرچہ میری
آئے اور آ کے کوئی خواب چرا لے میرے
واپسی کا گیت
سفر، مسلسل
نجانے ہم دائروں کی گردش ہیں
یا کسی سیدھ کا ادھورا سا مرحلہ ہے
یہی خبر ہے
بس اک سفر ہے
سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی
بپھر کے میری لہر لہر انگارہ تھی
کل تِری خواہش کب اتنی بنجاری تھی
تُو سر تا پا آنکھ تھا، میں نظارہ تھی
میں کہ جنوں کے پروں پہ اڑتی خوشبو تھی
رنگ رنگ کے ٭آکار میں ڈھلتا پارہ تھی
اس کارِ محبت میں تجارت نہیں کی ہے
حاصل کوئی اس فن میں مہارت نہیں کی ہے
جب کر دیا سر خم تِرے ہر حکم کے آگے
پھر حکم عدولی کی جسارت نہیں کی ہے
جو رنج و الم سے کرے دو چار کسی کو
ایسی کبھی ہم نے تو شرارت نہیں کی ہے
دنیا پہ مِرے یار بھروسہ نہ کیا کر
دھوکا یہ تجھے دے گی سدا اپنا بنا کر
آواز تو سچائی کی زندہ ہے ابھی تک
کیا مل گیا منصور کو سُولی پہ چڑھا کر
جب وقت نے خواہش کے نقابوں کو اٹھایا
خوش فہمی مِری بیٹھ گئی سر کو جُھکا کر
ہم جاہل ناکارہ لوگ
ہم پر کریں اجارہ لوگ
ہم ہیں راکھ امیدوں کی
وہ ہیں چاند ستارہ لوگ
کس کی بات سنے گا کوئی
بول رہے ہیں بارہ لوگ
اسی لیے تو ہر اک ہم زبان اس کا تھا
کہ گاؤں میں جو تھا پختہ مکان، اس کا تھا
اب اس کے حکم پہ بھی راستے بدلنے تھے
کہ ناؤ میری تھی، اور بادبان اس کا تھا
جبھی تو چھاؤں میں اِک دھوپ سی تمازت تھی
کہ میرے سر پہ جو تھا سائبان، اس کا تھا
میں نے سارے وجود دیکھے ہیں
جھوٹے سچے سجود دیکھے ہیں
لوگ ظاہر میں وہ نہیں ہوتے
جیسے ہر پل موجود دیکھے ہیں
برکتیں اٹھ گئیں ہیں یار میرے
ہر کمائی میں سود دیکھے ہیں
سنا ہے میرے عشق سے وہ بے خبر نہیں رہا
خمار تھا جنون کا جو بے اثر نہیں رہا
نہ مجھ کو چاہ عشق کی نہ اس کو آس وصل کی
ہے میرے ساتھ ساتھ پر وہ ہمسفر نہیں رہا
مجھے بلانے آئیں، در وہ کھٹکھٹانے آئی تھیں
پلٹ گئیں صدائیں پھر کہ اب وہ در نہیں رہا
کیوں ڈروں فتووں سے
ڈر نہیں
مجھے کفر کے فتوے سے
ڈرتا ہوں اللہ سے
تو کیوں ڈروں
فتووں سے
بات کچھ بھی نہ تھی کیوں خفا ہو گیا
جو تھا اپنا مِرا، غیر سا ہو گیا
دھوپ شدت کی تھی چل پڑا راہ میں
ماں کا آنچل مِرا آسرا ہو گیا
مجھ کو موجِ بلا سے کوئی ڈر نہیں
جب سہارہ مِرا ناخدا ہو گیا
آبلہ پائی ہے محرومی ہے رُسوائی ہے
اس بتِ ناز کا دل پھر بھی تمنائی ہے
میری آنکھوں سے ٹپکتے ہیں لہو کے آنسو
آج بے لوث محبت کی بھی رسوائی ہے
لب پہ پھر نام وہی حسن وہی آنکھوں میں
اے دلِ زار یہی تیری شکیبائی ہے
حدِ ستم نہ کر کہ زمانہ خراب ہے
ظالم خدا سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے
اتنا نہ بن سنور کہ زمانہ خراب ہے
میلی نظر سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے
بہنا پڑے گا وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ
بن اس کا ہم سفر کہ زمانہ خراب ہے
ہے کچھ اگر سلیقہ ہے کچھ اگر قرینا
مرنے کی طرح مرنا جینے کی طرح جینا
کرتا ہوں پار دریا طوفان کی مدد سے
میری نگاہ میں ہے ہر موج اک سفینا
اس میں بھی روشنی ہے اس میں بھی روشنی تھی
میرا بھی ہے وہ سینہ موسیٰ کا تھا جو سینا
کچھ نہیں تھا مختلف رنگوں کا جب امکان تھا
میں بھی تھا بنجر بہت وہ بھی بہت ویران تھا
سب سمندر میں اتر آئے تھے ساحل چھوڑ کر
کون ڈوبا کتنے پانی میں؟ ہر اک انجان تھا
آگ تھی میرا مقدر، اور پانی کے لیے
میں سرابوں کے تعاقب میں بہت ہلکان تھا
شاعری یا لن ترانی ہے تو ہے
یہ روایت خاندانی ہے تو ہے
لازمی تھا کچھ سوالوں کا جواب
چلیے پھر یہ بد زبانی ہے تو ہے
ہم تو اک تصویر ان کو دے چکے
اب بھلے یہ مہربانی ہے تو ہے
حسن صدپارہ کے لیے ہدیۂ عقیدت
وہ سب کے سب پگھل چکے
تمام خیرہ سر ڈھلانیں پائمال ہو چکیں
جو نقطۂ جماد تھا وہ پارہ پارہ ہو چکا
پہاڑ شرمسار ہو چکا
یہ معرکہ بھی سر ہوا فلک سوار
جنوں تمہارا سر بہ سر ہوا فلک سوار
آنسوؤں کی زبان ہوتی ہے
خود کہانی بیان ہوتی ہے
آیتِ عشق ورد کرتا ہوں
جب بھی خطرے میں جان
میں محبت کو دیکھ آیا ہوں
اس کے منہ سے بیان ہوتی ہے
اندازِ گفتگو کا قرینہ نہ بُھولئے
علم و ادب کا ہے یہ خزینہ نہ بھولئے
اوصاف مصطفٰیﷺ کی جو تقلید ہو اگر
پھر زندگی کو شان سے جینا نہ بھولئے
ہر سانس عارضی ہے، نہیں موت سے مگر
ہر نفس کو یہ زہر ہے پینا نہ بھولئے
ایک ہی زندہ بچا ہے یہ نرالا پاگل
جھوٹ کے شہر میں سچ بولنے والا پاگل
ہاتھوں میں پھول لیے آئے ہیں سب لوگ جہاں
لے کے آیا ہے وہاں پاؤں کا چھالا پاگل
اس کی آنکھوں میں عجب نور تھا دانائی کا
تم نے محفل سے جسے کہہ کے نکالا پاگل
بڑے عجیب مناظر نظر سے گزرے ہیں
جب اہلِ ہوش تِری رہگزر سے گزرے ہیں
مسافرانِ رہِ زیست کا شمار کہاں
نہ جانے قافلے کتنے ادھر سے گزرے ہیں
تِری تلاش میں دنیا کو چھان ڈالا ہے
تِری تلاش میں ہر رہگزر سے گزرے ہیں
ہم سے تھے سب ہی خفا سو چلے آئے گھر سے
کیسے بھولیں گے وہ آزار جو پائے گھر سے
روک لیتی ہے انا چار قدم چلتے ہی
یوں نہ لوٹیں گے منانے کوئی آئے گھر سے
دلِ ناکام کو تو اب بھی یہی حسرت ہے
کوئی اس کے لیے آنسو ہی بہائے گھر سے
دلوں کو جوڑنا ہے روح کو تسخیر کرنا ہے
نیا دستورِ عمرانی ہمیں تحریر کرنا ہے
حق و باطل کا ہے یہ معرکہ ثابت قدم رہنا
ہر اک شیطان کو ابلیس کو نخچیر کرنا ہے
اٹھیں اس قوم کے مزدور اور معمار پھر جاگیں
ہے بکھرا آشیاں اپنا، اسے تعمیر کرنا ہے
پہلے میں گھر کھولتا تھا آج مجھ پر گھر کُھلا
جیسے عمروں بعد مجھ پر تھا مِرا اندر کھلا
اس اشارے سے کہ بھائی تھا شریکِ جائیداد
قتل کے سارے وقوعے کا پسِ منظر کھلا
ہم جہاں رہتے ہیں اس بستی میں رہتے ہیں درند
رکھ کے سوتے ہیں سرہانے، رات کو خنجر کھلا
قسمت کہ جیتے ہارے ہیں
ہم تو دیوانے سارے ہیں
ڈوب نہ جائے دریا میں
بوجھ سینہ بھارے ہیں
کون بچانے آئے گا
دوزخ کے ہم نارے ہیں
جہاں بھی وہ پناہیں ڈالتے ہیں
کئی واں خوابگاہیں ڈالتے ہیں
محبت، شاعری، سنگیت، تینوں
وہاں بانہوں میں بانہیں ڈالتے ہیں
محبت بے بسی کی آخری حد
خفا بھی ہوں، نگاہیں ڈالتے ہیں
نظر انداز مجھ کو کر رہے ہو
یقیناً تم کسی سے ڈر رہے ہو
کہا جب یار نے تو ڈوب جاؤ
تعجب ہے ابھی تم تر رہے ہو
زباں کے آبلے جلدی سے پھوڑو
بحث کرنے کو تم جو مر رہے ہو
نہ رہبر نے نہ اُس کی رہبری نے
مجھے منزل عطا کی گُمرہی نے
بنا ڈالا زمانے بھر کو دُشمن
فقط اک اجنبی کی دوستی نے
وہ کیوں محتاج ہو شمس و قمر کا
جِلا بخشی ہو جس کو تیرگی نے
احساس کے جنگل میں خوشبو کا مسافر ہوں
غالب کی حویلی کا خوش رنگ میں طائر ہوں
غزلوں میں تِرا چرچہ کرتا ہوں سرِ محفل
خود ہوتا ہوں میں رسوا مجبور ہوں شاعر ہوں
درویش سکونت کے خانے میں کرے کیا درج
درپیش رہی ہجرت،۔ ہر لمحہ مہاجر ہوں
نغمۂ واپسیں
ہر بار تجھ سے بچھڑنے کے بعد
میں یہی فیصلہ کرتی ہوں کہ
میں اب واپس نہیں آؤں گی
یہی طے کرتی ہوں
لیکن
پھر واپس آ جاتی ہوں
قدم قدم ہے نیا امتحان میرے ساتھ
جو چل سکو تو چلو میری جان میرے ساتھ
بلندیوں پہ اکھڑنے لگے نہ سانس کہیں
سمجھ کے سوچ کے بھرنا اڑان میرے ساتھ
میرے خیال کی دنیا نئی ہے ہر لمحہ
بہر نفس ہے کوئی فکان میرے ساتھ
اس کی محفل میں مِرا نام نہیں ہو سکتا
اور پھر اتنا سر عام نہیں ہو سکتا
یہ تو پھر پھول کی قسمت ہے کھلے یانہ کھلے
اب بہاروں پہ تو الزام نہیں ہو سکتا
آپ جو مجھ سے مجھے مانگ رہے ہیں صاحب
دیکھئے آپ کا یہ کام نہیں ہو سکتا
تکلم کے بہانے ڈھونڈتے ہیں
وہ اب میسج پرانے ڈھونڈتے ہیں
عجب پاگل ہیں ہم پردیس میں بھی
سکوں کے آشیانے ڈھونڈتے ہیں
حقیقت کو چھپا کر گیلری میں
نہ جانے کیا فسانے ڈھونڈتے ہیں
چھوڑ دونوں جہان رہنے دے
لا مکاں لا مکان رہنے دے
دید مطلوب ہے اگر صاحب
فاصلہ درمیان رہنے دے
کب زمیں کا کوئی تقاضہ مِرا
سر پہ کچھ آسمان رہنے دے
تِرے دئیے ہوئے زخموں سے پیار کرتے ہوئے
میں جی رہا ہوں ہر اک حد کو پار کرتے ہوئے
میں دل کی آنکھ سے دیکھوں تِرے سراپے کو
خیال و خواب سے نقش و نگار کرتے ہوئے
عزیز تھا تو مِرے دل کو ایک عرصہ تک
میں غمزدہ ہوں بہت تجھ پہ وار کرتے ہوئے
ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا
ابھی تو وقت کے ہاتھوں سے کچھ لمحے چرانے ہیں
ابھی کچھ زخم تازہ ہیں جو اشکوں سے بہانے ہیں
بہت سی باتیں کرنی ہیں بہت سے دکھ سنانے ہیں
ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا
ابھی تو بادلوں کی چھاؤں میں کچھ دیر بیٹھیں گے
بکھرا ہوں جب میں خود یہاں کوئی مجھے گرائے کیوں
پہلے سے راکھ راکھ ہوں پھر بھی کوئی بجھائے کیوں
عیسیٰ نہ وہ نبی کوئی ادنیٰ سا آدمی کوئی
پھر بھی صلیب درد کو سر پہ کوئی اٹھائے کیوں
سارے جو غمگسار تھے کب کے رقیب بن چکے
ایسے میں دوستوں کوئی اپنا یہ غم سنائے کیوں
میں نے پہلے تو یاروں کو آواز دی
اور پھر دنیا داروں کو آواز دی
اشک دریا کی صورت نکل آئے تو
چشمِ تر نے کناروں کو آواز دی
میں بھی چلنے لگا آسماں کی طرف
چاند نے جب ستاروں کو آواز دی
تم خوشی کی تلاش رہنے دو
مجھ کو یونہی اداس رہنے دو
زخم گر ساتھ ہیں تو لے جاؤ
درد کو میرے پاس رہنے دو
کاٹ کرعشق کا شجر مِرے دوست
میرے قدموں میں گھاس رہنے دو
طلوعِ فجر سے پہلے کے منظر دیکھتے رہنا
مِرا معمول ہے راتوں کو اکثر جاگتے رہنا
کسی کی یاد کے سارے حوالے ذہن میں رکھ کر
خلاؤں میں کوئی گم گشتہ جنت ڈھونڈتے رہنا
کبھی یخ بستہ راتوں میں کسی کا منتظر رہنا
تصور میں کبھی ماضی سجا کر سوچتے رہنا
عشق کی گم شدہ منزلوں میں گئی
زندگی لوٹ کر دلدلوں میں گئی
یاس و حسرت بھری بے اماں زندگی
آس کے ریشمی آنچلوں میں گئی
وہ صدا جو فغاں بن کے اٹھی مگر
خامشی کے گھنے جنگلوں میں گئی
تعبیروں کے درد اٹھا کر کیا کرنا ہے
کیا کرنا ہے خواب سجا کر کیا کرنا ہے
اس کی صورت اس کی باتیں بھول گئے ہیں
پھر سوچا، خود دھوکا کھا کر کیا کرنا ہے
آپ نے جب لفظوں کے معنی بدل دئیے ہیں
آپ کو اپنا دوست بنا کر کیا کرنا ہے
کبھی کبھار ملاقات کا بہانہ بنے
پھر اس کے بعد بلا سے کوئی فسانہ بنے
عجب نہیں ہے کہ اس بار دو اناؤں کی جنگ
جہان بھر کی تباہی کا شاخسانہ بنے
وہ سب جہان کا ہے سب جہان اس کا ہے
بس ایک میرے لیے اس کے دل میں جا نہ بنے
ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی؛ مجھے اردو سے عشق ہے
تعلیمی قابلیت؛ ایم اے اردو زبان و ادب
پی ایچ ڈی اردو زبان و ادب
مقالہ ایم اے؛ سر سید احمد خان کے اخلاقی و اصلاحی مضامین؛ ایک تنقیدی جائزہ
مقالہ پی ایچ ڈی؛ فہمیدہ ریاض کی شاعری
ڈاکٹر ولاء آج کل بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، فیکلٹی آف آرٹس، عین شمس یونیورسٹی قاہرہ، مصر میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ ان کے ایک مضمون ؛ ’مجھے اردو سے عشق ہے‘ کو پڑھیں تو واقعی یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ وہ اردو زبان کی سچی عاشق ہیں۔ ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی کی نظموں کا مجموعہ’سمندر ہے درمیاں‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اردو پر تحقیق و تنقید کے سلسلے میں ’اردو شاعری میں قومیت اور وطنیت کے تصورات‘ کے عنوان سے ان کی ایک کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ اسی طرٖح تحقیق و تنقید پر مبنی کتاب ’عربی اور اردو میں معاصر حسینی شاعری‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ ’دشتِ جنوں‘ کے نام سے مصری علمی و ادبی شخصیات کے مضامین کے ایک ادبی گلدستہ بھی مرتب کر چکی ہیں۔ آپ دو عدد عربی زبان کی کتابیں بھی لکھ چکی ہیں۔
میں نیل کے کنارے ہوں، لیکن نگاہ میں
جہلم ہے، گنگا جمنا ہے، راوی چناب ہے
دل سے زور آزمائی لازم ہے
خود سے ہی اک لڑائی لازم ہے
دل تِرے عشق میں مقیّد ہے
اس سے تھوڑی رہائی لازم ہے
اب ہے غیروں سے رابطہ تیرا
تو، ہماری جدائی لازم ہے
جھاڑ کر شاخِ بدن پر سے جدائی میں نے
جمع کی فصلِ محبت کی کمائی میں نے
ڈھونڈ لائی ہوں میں مجذوب محبت کا علاج
سانس پر آنچ رکھی دھونی جگائی میں نے
مور کے بکھرے پر و بال پہ گریہ زن ہوں
دشت میں رقص کیا دھول اڑائی میں نے
جن لوگوں کے یار نہیں ہوتے
کہتے ہیں بے زار نہیں ہوتے
رونا ہی رونا ہو جن کی قسمت میں
خوشیوں سے دو چار نہیں ہوتے
جو بھی لمحے تیری یادوں میں گزریں
وہ لمحے بے کار نہیں ہوتے
تُو ہے چارہ ساز میرا
بِن تِرے ہے کون ایسا
جو دلوں کا حال جانے
کوئی یاں ایسا نہیں جو
بِن کہے فریاد سن لے
بِن بتائے حال جانے
سو یہی ہے مجھ پہ لازم
موت کے لیے ایک نظم
میں اب مرنا چاہتا ہوں
مرتے وقت
اور مرے ہوئے
میں ان قدروں کی پامالی کا تجربہ اُدھار لوں گا
زندگی جن کے لیے مجھے شرمسار کرتی رہی
موت روزانہ میرے سامنے
تاثیر نہیں لگتی کسی زہر میں ہم کو
مر جانا تھا اے یار! کسی قہر میں ہم
دشمن کے سمندر سے نکل آئے ہیں کب کے
اب اپنے ڈوبوتے ہیں یہاں نہر میں ہم کو
خوابوں کے جنازے لیے پھرتے ہیں وہاں ہم
کاندھے بھی میسر نہیں جس شہر میں ہم کو
جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں
جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں
حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے
حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں
رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لیے
صبح ہوتے ہی جنہیں لوگ بجھا دیتے ہیں
اک پیکرِ افکار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں
میں صاحبِ کردار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں
عورت ہوں مگر مرد سے کمتر بھی نہ جانو
میں ناؤ کی پتوار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں
اجداد کی شفقت و رفاقت میں پلی ہوں
شیریں دم گفتار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں
پیچ کھاتی ہے بہت پاگل ہوا
دیکھتی ہے جب کوئی جلتا دِیا
سنگِ مر کی سِلوں کو کیا خبر
بارش اور مٹی کا یہ رشتہ ہے کیا
پہلے بھی وہ سر نہ تھا کچھ کم بلند
کٹ گیا تو اور اونچا ہوگیا
ہمارا نام وہ بھی ان کے لب سے نِکلا ہے
سنا ہے ہم نے بڑے ہی ادب سے نکلا ہے
ہر ایک آنکھ اسے تک رہی ہے حسرت سے
کچھ ایسے حسنِ مجسم وہ ڈھب سے نکلا ہے
کوئی ملال نہیں گر بچھڑنے کا تجھ کو
یہ اشک آنکھ سے پھر کس سبب سے نکلا ہے
اپنے دعووں سے کم منافق نئیں
وہ جو کہتے ہیں؛ ہم منافق نئیں
میں نے مطلب غلط لیا شاید
اس کی زلفوں کا خم منافق نئیں
وقت کی نازکی سمجھتا ہے
میری آنکھوں کا نم منافق نئیں
غم کی گہرائی میں گم دل ہے دھڑکنے والا
میرے احساس کا پیالہ ہے چھلکنے والا
ایک امید پہ اک چہرے کو تکنے والا
میں وہی ہوں تِری دنیا سے نکلنے والا
روح اک جاتی ہے پھر توڑ کے زنجیرِ خرد
پھر ہے زنداں سے کوئی جسم نکلنے والا
دل یوں سحر کے واسطے مت بے قرار کر
ظلمت کی شب گزرنے کو ہے اعتبار کر
سودا ہے سر پہ کیسے میں روکوں زبان کو
جو جی میں آئے وہ ہی روش اختیار کر
قاتل کو میری لاش پہ جو چارہ گر کہے
اس کو بھی میرے قتل میں شامل شمار کر
دشمن تُو مِرے دھیان سے آگے کی بات کر
اب تیر اور کمان سے آگے کی بات کر
لے کر لیا قبول کہ میں ہوں انا پرست
عشق اب مِرے بیان سے آگے کی بات کر
رہتے ہیں خیمہ ڈال کر تیرے خیال میں
اب کوٹھی یا مکان سے آگے کی بات کر
ہزار کفر ہیں اک چشمِ پارسا میں تِری
بھری ہوئی ہے شرارت ادا ادا میں تری
بقا کو اپنی مشیت تِری سمجھتا ہوں
مِری حیات قضا کار ہے رضا میں تری
مِرے حبیب مِری آخرت کے اے ضامن
مِرے نصیب کی جنت ہے خاکِ پا میں تری
اقتباس از نظم
اسے کہنا
کہ صحرا کے سفر میں
ایک ہی چھاگل تھی اس نمکین پانی کی
جو زادِ راہ کہلایا
تمہارے گھونٹ سے تشنہ رہا
شیریں نہ ہو پایا
بنتِ حوا
عورت کی تحقیر کی باتیں
دہر میں گردش کرتے قصے
کانوں سے جب ٹکراتے ہیں
دُکھ ہوتا ہے
اکثر لوگوں سے سنتا ہوں
عورت ہے پاؤں کی جوتی
پھر تقاضا ہے کہ تجدیدِ وفا ہو جائے
خونِ دل نذر کرو فرض ادا ہو جائے
ہم ہیں سرشارِ محبت نہ شکایت نہ گِلہ
آپ کو عذر ہے تو عذرِ جفا ہو جائے
تشنہ لب کوئی نہ رہ جائے تِری محفل میں
جشن ہے آج تو رِندوں کا بھلا ہو جائے
اجنبیت میں عجب راحت تھی
فاصلے تھے مگر چاہت تھی
دوست رہتے تو کیا ہی اچھا تھا
دوست رہنے میں کیا قباحت تھی
اب تو انداز و خیالات ہی کچھ اور حضور
پہلے پہلے تو اخلاق تھا، نفاست تھی
بہشتِ زر کے مکینوں کو آزماتا ہے
مفاد سارے کمینوں کو آزماتا ہے
تمہارے گھر کے مقابل ہی ایک مسجد ہے
خدا بھی کیسے جبینوں کو آزماتا ہے
دل و دماغ و بدن سب ایک جا کر کے
کبھی کبھی تو وہ تینوں کو آزماتا ہے
رہِ حیات کے رنج و الم مجھے دے دو
تم اپنی روح کے سب سوز و غم مجھے دے دو
میں بن کے پیار کا ساگر سمیٹ لوں گی انہیں
جو آنسوؤں سے ہو پُر چشمِ نم مجھے دے دو
دُکھوں کو آؤ ذرا بانٹنے کی بات کریں
تمہاری جاں پہ جو گزرے ستم مجھے دے دو
محبت
محبت عزم ہوتی ہے سراپا بزم ہوتی ہے
محبت ہی دلوں میں چاہتوں کی بزم ہوتی ہے
محبت دل کی دھڑکن ہے محبت ایک آہٹ ہے
محبت خوف کے لمحوں میں کوئی سنسناہٹ ہے
محبت کے شناسا پر محبت قرض ہوتی ہے
اگر ایمان ہو جائے محبت فرض ہوتی ہے
خطاب کیسے کروں تم سے ہر کسی کی طرح
میں دشمنی بھی کروں گا تو دوستی کی طرح
میں کس طرح سے گزاروں گا زندگی تنہا
تِرے بغیر یہ لمحہ ہے اک صدی کی طرح
ہمارے گھر میں تو تھوڑا سا ہی اجالا ہے
تبھی تو روشنی لگتی ہے تیرگی کی طرح
موت سے گہرا دُکھ بھی سہنا ہوتا ہے
کتنا مُشکل زندہ رہنا ہوتا ہے
گِر جائے تو مٹی میں مل جاتا ہے
آنسو ورنہ آنکھ کا گہنا ہوتا ہے
لوگ نہ جانے کیا کچھ کہتے رہتے ہیں
لیکن ہم نے شعر ہی کہنا ہوتا ہے
مسیحائی
میں نے دیکھا ہے تجھ کو اکثر یوں
خوبصورت سی تیری آنکھوں میں
سُرمئ شام کی اداسی ہے
رُخ پہ گردِ ملال کی صورت
اک پریشاں خیال کی صورت
جانے کس نام کی اُداسی ہے
بِن تیرے دل میں اب کوئی آباد تک نہیں
میرے لبوں پہ بھی کوئی فریاد تک نہیں
پوچھا ہے آج مجھ سے کسی نےجو تیرا نام
حیرت کی بات ہے کہ مجھے یاد تک نہیں
بنیاد ایک کفر کا فتویٰ ہمارا فن
اپنے تو پاس اور کوئی ایجاد تک نہیں
وہ ملا رات خواب میں جیسے
تیرتا عکس آب میں جیسے
دیکھ کر اس کو دل ہوا بے چین
وه بھی تها اضطراب میں جیسے
یاد نے چھیڑے تار یوں دل کے
دُھن بجی ہو رباب میں جیسے
بے وفائی میں دل ستانی میں
کتنے قصے ہیں بے زبانی میں
کیا ملا ایسی راز دانی میں
پوری دنیا ہے اب کہانی میں
آس الفت کی کر رہے تھے صنم
غم ملے آپ کی نشانی میں
بدنامیوں کو نام کہو گے کہاں تلک
یوں پستیوں کو بام کہو گے کہاں تلک
اک اہل زر کا کھیل ہے دستورِ مملکت
اس ظلم کو نظام کہو گے کہاں تلک
ڈھل جائے گی ہاں خود ہی یہ کیوں انتظار ہے
ظلمت کی شب کو شام کہو گے کہاں تلک
صندل و عنبر و لوبان نہیں ہے گھر میں
سرخوشی کا کوئی سامان نہیں ہے گھر میں
مسئلہ ایک بھی آسان نہیں ہے گھر میں
بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے گھر میں
باپ کا سر سے مِرے سایہ اُٹھا ہے جب سے
ایسے لگتا ہے نگہبان نہیں ہے گھر میں
اے دوست دل حیات سے محوِ نبرد ہے
مت یہ گمان کر کہ مِرا خون سرد ہے
میں ہوں تلاشِ منزلِ ہستی کو گامزن
چہرے پہ میرے دیکھ لے صدیوں کی گرد ہے
اس کو بھی میری حالتِ دل کی ہے کچھ خبر
معمول سے زیادہ خزاں اب کے زرد ہے
وقت کے آلام میں ہر شخص ہے الجھا ہوا
میں اکیلے ہی نہیں وحشت زدہ ٹوٹا ہوا
اے مسیحا چھوڑ دے اب حال پر اپنے مجھے
زخمِ دل چارہ گری سے اور بھی گہرا ہوا
آگ گلشن میں لگائی سرکشوں نے ہی مگر
سر کسی معصوم کا ہے دار پر لٹکا ہوا
ایسی چاہت مجھے عطا کر دے
عشق ہو جائے تو فنا کر دے
قوم و ملت کا جذبہ زندہ رہے
دل میں تابندہ مدعا کر دے
عقدۂ زیست مجھ پہ کھل جائے
تُو حقیقت سے آشنا کر دے
حشمت و جاہ کی توقِیر بدل جاتی ہے
بخت ڈھل جاتے ہیں، تقدیر بدل جاتی ہے
وجد میں ہوش کہاں رہتا ہے دیوانے کو
رقص میں پاؤں کی زنجیر بدل جاتی ہے
روز بدلے ہوئے لگتے ہیں مناظر مجھ کو
روز ہی شہر کی تعمیر بدل جاتی ہے
در و دیوار سب اوندھے گریں گے
پرانے گھر ہمیں روتے رہیں گے
بقا کے شہر میں جانے سے پہلے
ہم اپنے جسم کے اندر مریں گے
شعور و حرف بھی جو چھن گئے تو
اکیلے دشت میں ہم کیا کریں گے
وہ اور ایک منظر
جھیل آنکھیں تِری، شفق عارض
شام کا نیلگوں حسیں منظر
اور ایسے میں تُو جو بر سرِ بام
بے حجابانہ جلوہ گر ہو جائے
شوخ و چنچل ہوا کا نازک ہاتھ
تیری زلفوں کی کوئی لٹ چھٹکائے
جانے کیسا دکھ ہوتا ہے
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے
شدتِ غم سے دل روتا ہے
پلکوں کی وِیران ڈگر پر
اشکوں کے انجان مسافر
جن کا کچھ آغاز نہ آخر
بُھولے بھٹکے آ جاتے ہیں
یہی ارمان، یہی شوق ہے دیوانے کا
رنگ پھیکا نہ پڑے عشق کے افسانے کا
بادہ خواروں کو تِرے ہوش ابھی باقی ہے
دور چلتا رہے ساقی یوں ہی پیمانے کا
بحرِ الفت سے ہوا پار سفینہ میرا
قصد جب کر لیا طوفان سے ٹکرانے کا
رونے دھونے کی ہر کہانی کی
میرے اشکوں نے ترجمانی کی
تم جسے بوڑھا کہہ رہے ہو وہ
میری تصویر ہے جوانی کی
جسم بے کار ہو گیا میرا
روح نے ایسی چھیڑ خانی کی
جنوں تعلیم کچھ فرما رہا ہے
خِرد کا ساتھ چُھوٹا جا رہا ہے
بڑھی جاتی ہے شمعِ بزم کی لَو
کوئی پروانہ شاید آ رہا ہے
فنا کا پیشرو اس کو سمجھیے
جو لمحہ زندگی کا جا رہا ہے
تیری مثال آنکھوں میں تمثیل ہو گئی
دھڑکن ہزار رنگوں میں تبدیل ہو گئی
تیری نظر کی چھاؤں تو بادل سے کم نہ تھی
پھیلی مِری زمین پہ میں جھیل ہو گئی
کیسی بدن کی قربتیں اور کیسی چاہِ وصل
جب روح تیری روح میں تحلیل ہو گئی
حسن آیا ہے بازار تک
بات پہنچے خریدار تک
ہم نے ہتھیار ڈالے نہیں
گر گئی سر سے دستار تک
کون اترا ہے میدان میں
خوف میں ہے جو سالار تک
تا عمر محبت کی حسیں شام پہ ٹھہرے
ہم جیت کے ہارے بھی تِرے نام پہ ٹھہرے
یخ بستہ ہواؤں کی نمی سانس میں لے کر
آزاد پرندے تھے تِرے بام پہ ٹھہرے
پہلے تو ورق پر لکھی سادہ سی کہانی
پھر عشق کے ہاتھوں کسی الہام پہ ٹھہرے
ہری شاخ
کبھی جو ذرا سی خبر ملی
مِری غفلتوں میں بکھر گئی
مِرے ساتھ بے خبری رہی
مجھے ایسا رنگ جنوں ملا
مِرے سامنے وہ مِری رہی
وہ بہارِ عشق تھی جاوِداں
کیا کیا بتاؤں ذات کے اندر بنی ہوئی
میں ہوں کسی کی راہ کا کنکر بنی ہوئی
آ جا کہ میرے حسن کو پگھلا کے موم کر
میں ہوں کہ تیرے ہجر میں پتھر بنی ہوئی
اک با وفا کی آنکھ سے بہتی رہی ہوں میں
اک بے وفا کی آنکھ کا منظر بنی ہوئی
چین مجھ کو ملا کہاں اب تک
لے رہا ہے وہ امتحاں اب تک
حال مجھ سے نہ پوچھیے میرا
اشک آنکھوں سے ہے رواں اب تک
بجلیاں تو سکوں سے لوٹ گئیں
جل رہا ہے یہ آشیاں اب تک
طنز کرتا ہے آئینہ مجھ پر
وقت کیسا یہ آ پڑا مجھ پر؟
ایک ہلکی سی ضرب ماری تھی
شہر سارا ہی آ پڑا مجھ پر
ایسا لگنے لگا ہے اب مجھ کو
ہر مصیبت کی انتہا مجھ پر
کچھ اس لیے بھی وہ مجھے اچھا بہت لگا
اس کا ہر ایک عیب تھا تم سا بہت لگا
تیرے بغیر عید تو تھی ہی بے لطف و کیف
تیرے بغیر چاند بھی دُھندلا بہت لگا
ہنس کر اگرچہ ٹال دی میں نے تمہاری بات
دل کو تمہاری بات سے دھکا بہت لگا
لے کے بے شک ہاتھ میں خنجر چلو
اوڑھ کر اخلاص کی چادر چلو
کوئی چنگاری نہ ہو اس ڈھیر میں
سوچ کر ان خشک پتوں پر چلو
حادثے باہر کھڑے ہیں گھات میں
پھر پلٹ کر خول کے اندر چلو
بہت نایاب ہوتی جا رہی ہے
محبت خواب ہوتی جا رہی ہے
مِرے الفاظ تارے بن گئے ہیں
غزل مہتاب ہوتی جا رہی ہے
یہ کس کی تشنگی کا ہے کرشمہ
ندی پایاب ہوتی جا رہی ہے
یادیں
عہدِ ماضی کے جھروکوں سے چلی آتی ہیں
مُسکراتی ہوئی یادیں میری
گُنگناتی ہوئی یادیں میری
اور محسوس یہ ہوتا ہے مجھے
جیسے بنجر سی زمیں
قطرۂ ابرِ گہربار سے شاداب بنی
شِکستہ گھر میں کوئی چیز بھی نہیں پوری
کہیں ہوا تو کہیں روشنی نہیں پوری
میں تجھ کو دیکھ تو سکتا ہوں چُھو نہیں سکتا
تُو ہے، مگر تِری موجودگی نہیں پوری
انا سنبھالتے دل کھو دیا ہے میں نے وہیں
تمہارے سامنے سے واپسی نہیں پوری
اب مجھے دُنیا میں کوئی آشنا مِلتا نہیں
بے وفا مِلتا ہے لیکن با وفا ملتا نہیں
کیا خِزاں کا دور دورہ ہے چمن میں آج کل
کوئی پیغامِ بہارِ جاں فزا ملتا نہیں
سرحدِ ادراک سے ہے ماوراء رازِ خُودی
مبتداء ملتا ہے اُس کا، منتہا ملتا نہیں
سخت جاں اور بے حس ہوا ہوں
غم کے احساس سے بچ گیا ہوں
دوستوں سے بھی حیرت زدہ ہوں
اجنبی دشمنوں میں رہا ہوں
کوئی حد بھی تو ہو سوچنے کی
سوچتا ہوں تو بس سوچتا ہوں
جرمِ ناکردہ کی ہم تعزیر سے ڈرتے رہے
کون کہتا ہے کہ ہم تقدیر سے ڈرتے رہے
اپنی ہی تحریر سے تقریر سے ڈرتے رہے
ہمسفر سے، ہم کبھی رہگیر سے ڈرتے رہے
بے بسی کا ایک عالم چار سُو چھایا رہا
منقسم ہوتی ہوئی جاگیر سے ڈرتے رہے
تو پھر سچ کون بولے گا؟
اگرمیں سچ بولوں گا
مار دیا جاؤں گا
اگر تم سچ بولو گے
مار دئیے جاؤ گے
تو پھر سچ کون بولے گا؟
سمجھ میں آ گیا جب فلسفہ بندہ نوازی کا
عمل ہر اک ہوا مقبول پھر ایسے نمازی کا
عطا توفیق ہو جائے اگر عشقِ حقیقی کی
ہَرن ہو جائے پھر سارا نشہ عشقِ مجازی کا
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں کبھی دعویٰ نہیں کرتے
برا انجام دیکھا ہے غرورِ پاکبازی کا
اتنا سننے میں آیا کہ اس گاؤں میں چند بادل گئے
گل گئیں کھیتیاں اور بچوں کے حصے کے چاول گئے
کب خزاں آ گئی، برگ و گل کے رنگا رنگ آنچل گئے
کتنے نرمل گئے، کتنے کومل گئے، اور مکمل گئے
ایک آسیب تھا، اس حویلی میں کوئی نہ تھا دوسرا
قہقہے گونجنے لگ گئے جب وہاں چند پاگل گئے
ہر چیز مشترک تھی ہماری سوائے نام
اور آج رہ گیا ہے تعلق برائے نام
تب میں کہوں کہ سچا ہوں یکطرفہ عشق میں
وہ میرا نام پوچھے، مجھے بھول جائے نام
وہ دلربا بھی تھی کسی شاعر کی کھوج میں
میں نے بھی پھر بتایا تخلص بجائے نام
ایک گلی میں مُڑتے ہی اک شام سہانی پڑتی ہے
اس کے گھر کے رستے میں بس یہی نشانی پڑتی ہے
پہلے پہل تو سب کچھ اپنے دل میں چھپائے رکھتی ہوں
آخر اس کو دل کی ساری بات بتانی پڑتی ہے
جذبوں پر جب برف جمے تو جینا مشکل ہوتا ہے
دل کے آتشدان میں تھوڑی آگ جلانی پڑتی ہے
فکرِ نا پیدا کراں دیکھ مجھے
زورِ پروازِ گماں دیکھ مجھے
سوزِ رفتارِ زماں دیکھ مجھے
ہے یہ بس میرا جہاں دیکھ مجھے
ہے نظر لائقِ دیدار کہاں
دیکھ لے اُس کا نشاں دیکھ مجھے
دستار سروں سے مہنگی ہے
کیا جان انا سے سستی ہے
یہ سوچ رہے دیوانے ہیں
بے مول ہیں ہم، اس دنیا میں
کیا عمر گنوانے آئے تھے
یہ پوچھ رہے دل والے ہیں
اک راز دل ربا کو بیاں ہونا ہے ابھی
حرف و صدا کو شعلہ بجاں ہونا ہے ابھی
جاگی ہے دل میں شہد شہادت کی آرزو
راہِ وفا کا سنگِ نشاں ہونا ہے ابھی
روکا ہوا ہے تم نے ہواؤں کو کس لیے
اس راکھ میں شرر کا گماں ہونا ہے ابھی
بے خدا ہونے کے ڈر میں بے سبب روتا رہا
دل کے چوتھے آسماں پر کون شب روتا رہا
کیا عجب آواز تھی سوتے شکاری جاگ اٹھے
پر وہ اک گھائل پرندہ جاں بہ لب روتا رہا
جاتے جاتے پھر دسمبر نے کہا کچھ مانگ لے
خالی آنکھوں سے مگر دل بے طلب روتا رہا
جانے کیا کیا در گزر کرنا پڑا
جب ہمیں تقسیم گھر کرنا پڑا
دھوپ کی اندھی طلب تھی سو ہمیں
آنگنوں کو بے شجر کرنا پڑا
کیا سنہری دور اپنی عمر کا
کس خرابے میں بسر کرنا پڑا
مولا! کسی کو ایسا مقدر نہ دیجیو
دلبر نہیں تو پھر کوئی دیگر نہ دیجیو
اپنے سوال سہل نہ لگنے لگیں اسے
آتے بھی ہوں جواب تو فر فر نہ دیجیو
چادر وہ دیجیو اسے جس پر شکن نہ آئے
جس پر شکن نہ آئے وہ بستر نہ دیجیو
بے قراری سی بے قراری ہے
اب یہی زندگی ہماری ہے
میں نے اس کو پچھاڑنا ہے میاں
میری سائے سے جنگ جاری ہے
عشق کرنا بھی لازمی ہے مگر
مجھ پہ گھر کی بھی ذمہ داری ہے
بابے کی ہٹی
میں جب چھوٹا بچہ تھا
بابے کی ہٹی پر
ایک پڑوپی گندم سے
مُٹھی بھر نُگدی، پھلیاں اور مکھانے مل جاتے تھے
خوشیاں اتنی سستی تھیں
یونہی پڑی ہوتی تھیں
راکھ یادوں کی اڑانے میں بہت وقت لگا
یار! اس بار سنبھلنے میں بہت وقت لگا
میں نے فطرت کے مظاہر میں تجھے ڈھونڈا ہے
یا خدا! تجھ کو سمجھنے میں بہت وقت لگا
دستکیں لوٹ کے توڑیں گی سکوتِ جاں کو
در کو دیوار بنانے میں بہت وقت لگا
جامن جو سب پر اپنا رنگ چڑھا دے
تم کو شاید یقین نہ آئے
میں جب اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر تکتا ہوں
تو سامنے جو اونچا سا درخت نظر آتا ہے
وہ جامن کا ہے
جس سے میری دوستی ہے اور جو میری ہر کہانی میں ہے
یاد ہے تم کو
کھیت پیلے ہوں، ہرے ہوں یا کٹے کیا مطلب
دُھول چھٹتے ہی سنو لوٹ کے گھر جاؤں گی
سات رنگوں کی قـسم!! تُو مِرا رنگِ ہشتم
میں تیرے رنگ میں رنگتے ہی سنور جاؤں گی
جا کے بیٹھوں گی تِری سمت جھکائے نظریں
نہ میں بھٹکوں، نہ کسی اور کے در جاؤں گی
قربِ منزل ٹوٹ جائے حوصلا اچھا نہیں
فصل کو پکنے سے پہلے کاٹنا اچھا نہیں
ڈوبنے والے بھی اس کشتی کے کم شاطر نہ تھے
عادتاً کہتے رہے تھے؛ نا خدا اچھا نہیں
غیر کو پہلے پرکھتے مجھ سے پھر منہ موڑتے
جلد بازی میں تمہارا فیصلہ اچھا نہیں
کبھی اقرار ہونا تھا، کبھی انکار ہونا تھا
اسے کس کس طرح سے درپئے آزار ہونا تھا
سنا یہ تھا بہت آسودہ ہیں ساحل کے باشندے
مگر ٹوٹی ہوئی کشتی میں دریا پار ہونا تھا
صدائے الاماں دیوار گریہ سے پلٹ آئی
مقدر کوفہ و کابل کا جو مسمار ہونا تھا
جاتے ہوئے بیوپار کرو نا
آج اک کاری وار کرو نا
تیغ چلائی تھی جو دل پر
تیز اب اس کی دھار کرو نا
آنکھ چُرا کے جانے والو
ہم سے آنکھیں چار کرو نا
جیون بیت چلا
کل کل کرتے آج
ہاتھ سے نکلے سارے
بھوت بھوشیت کی چنتا میں
ورتمان کی بازی ہارے
پہرا کوئی کام نہ آیا
رس گھٹ ریت چلا
گُلشن مِرا ویران ہے
ہر اک شجر بے جان ہے
پنچھی اڑانیں بھر چکے
آنے لگا طوفان ہے
سایہ ہی اپنے ساتھ ہے
ہر اک ڈگر ویران ہے
محبت
محبت کیفیت ہے
وصال اور ہجر سے لفظوں کے دامن میں
یہ پوری آ نہیں سکتی
میں کہتا ہوں؛
وصال اور ہونٹ بھی
اک دوسرے سے مس نہیں ہوتے
گیت ہوں تو گا مجھے، غم ہوں گر اٹھا مجھے
حاصلِ مُراد ہوں، ایسے مت گنوا مجھے
کل تِری نگاہ میں نُور کا الاؤ تھی
آج مثلِ خاک ہوں، راکھ ہوں، بہا مجھے
عشق تھا طلب تِری، تجھ کو میں عطا ہوئی
اک دعا کے نام پر قید کر لیا مجھے
کچھ کو پتھر کرنا، کچھ کو ہونا آتا ہے
ان لوگوں کا حال نا پوچھو رونا آتا ہے
سارے جگنو چھوڑ دئیے ہیں مُٹھی خالی کی
ہم کو جو کچھ مل جاتا ہے، کھونا آتا ہے
اس میں تم کو دفن ملے گی کُنجی وادی کی
اس وادی کے آخر میں جو کونا آتا ہے
چلو میں مان لیتا ہوں
تمہیں چاہت نہیں مجھ سے
تمہیں الفت نہیں مجھ سے
محبت بھی نہیں مجھ سے
چلو میں مان لیتا ہوں
ذرا یہ تو بتاؤ تم
خالی پن
بارش
پہلے سے گیلی لکڑی کا کیا بگاڑے گی
برسے بادل
کس کی پیاس بجھائیں گے
بھیگے کینوس پر
کیا کوئی تصویر بنے
گراؤنڈ زیرو
وہاں بھی ہوتا ہے
ایک ریگستان
جہاں کسی کو دکھائی نہیں دیتی
اڑتی ہوئی ریت
وہاں بھی ہوتا ہے
ایک درد
دور منزل کہاں اب رہی دوستو
اک رکاوٹ ہے یہ آخری دوستو
گر ہے مخلص، ہے سچا تو لبیک ہے
اک نڈر کی ہو اب رہبری دوستو
آج آرام کا ذکر اچھا نہیں
بے کلی دوستو، تندہی دوستو
زندگی تُو ہی بتا تیری حقیقت کیا ہے؟
مول دھڑکن کا ہے کیا، سانس کی قیمت کیا ہے
تیری خاموشی سے سمجھی تِری نیت کیا ہے
اب تجھے میری محبت کی ضرورت کیا ہے
پڑھ لیا ہے تِری آنکھوں میں سبھی کچھ میں نے
نفسِ مضمون ہے کیا اور عبارت کیا ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
پیشِ نگاہ خاص و عام، شام بھی تُو، سحر بھی تُو
جلوہ طراز اِدھر بھی تو، روح نواز اُدھر بھی تُو
ایک نگاہ میں جلال، ایک نگاہ میں جمال
منزل طور پر بھی تو، مسند عرش پر بھی تُو
عجز و نیاز بندگی تیری نوازشوں سے ہے
حاکمِ ہر دعا بھی تُو، بارگہِ اثر بھی تُو
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
شکستہ رابطوں کو راستی کا حکم ملے
درِ حبیبﷺ سے وابستگی کا حکم ملے
سوائے آنکھوں کے تم مت کہیں نظر آنا
اے اضطراب! اگر حاضری کا حکم ملے
مِرا تو پُشتوں سے اس فن میں تجربہ بھی ہے
حضورؐ آپ کے ہاں چاکری کا حکم ملے
لباسِ امن میں شاہیں کو فاختہ نہ سمجھ
شریف زادوں کو اتنا بھی نا رسا نہ سمجھ
جو حرفِ حق تھا تِرے منہ پہ برملا ہے کہا
مِری بلا سے اسے حرفِ باغیانہ سمجھ
تِری شکست میں ممکن ہے تیرا حصہ ہو
تُو اپنے آپ کو اس درجہ بے خطا نہ سمجھ
تُو کہاں ہے کبھی مل
مجھے تجھ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں
جو میں کسی اور سے نہیں کر سکتا
دنیا بہت باتونی ہے
تُو کہاں ہے؟ کبھی مل
آواز دے
دل کے آنگن میں طاقچے ڈھونڈے
عشق حیرت کے مرحلے ڈھونڈے
شور چڑیا کا یاد پڑتا ہے
آنکھ بچپن کے گھونسلے ڈھونڈے
دشتِ الفت سے کون لوٹا ہے؟
تم نے ناحق وہ قافلے ڈھونڈے
کتنا مشکل ہے مِرے یار محبت کرنا
اور پھر تم سے لگاتار محبت کرنا
کارِ الفت کا صِلہ ہجر ہے اور ہجر فقط
اب کے کرنا بھی ہے بیکار محبت کرنا
تم نے ہر بار محبت ہی تو کی ہے لیکن
میں یہ کہتا ہوں کہ اس بار محبت کرنا
کہیں یہ شوق تمنا کا امتحان نہ ہو
کہیں وہ شخص میری راہ کی چٹان نہ ہو
چہک رہا ہے چمن میں جو صورتِ بلبل
اسی کے سینے میں پوشیدہ میری جان نہ ہو
نہ ہم نوا ہو کوئی،۔ اور نہ ہم زباں میرا
میں چاہتی ہوں کوئی مجھ پہ مہربان نہ ہو
میں تیری آنکھ میں یہ کیا تلاش کرتا ہوں
بھنور کے بیچ کنارہ تلاش کرتا ہوں
میں اک سکون کا لمحہ تلاش کرتا ہوں
اداسیوں میں بھی رستہ تلاش کرتا ہوں
جو میری آنکھ سے اوجھل کبھی نہیں ہوتا
اسے میں سب سے زیادہ تلاش کرتا ہوں
یہاں وہاں کی بلندی میں شان تھوڑی ہے
پہاڑ کچھ بھی سہی، آسمان تھوڑی ہے
مِرے وجود سے کم تیری جان تھوڑی ہے
فساد تیرے مِرے درمیان تھوڑی ہے
ملے بنا کوئی رُت ہم سے جا نہیں سکتی
ہمارے سر پہ کوئی سائبان تھوڑی ہے
محبت کے سیارے سے آخری پیغام
اے نُوری سالوں کی
دُوری پر رہنے والے
تم تک کب پہنچیں گے
میری نظموں کے سگنل
نصیر احمد ناصر
درخت شاداب پھل رسیلے ہوا کریں گے
کبھی یہ موسم بہت نشیلے ہوا کریں گے
کبھی کبھی سر تلک پہنچ جائیں گی وہ لہریں
کبھی کبھی صرف پاؤں گیلے ہوا کریں گے
ہم اتنی تعداد میں لگائیں گے پیڑ پودے
خزاں کے موسم میں صحن پیلے ہوا کریں گے
چُپکے چُپکے رویا جائے
شام بُجھی سی پنچھی چُپ
سینے کے اندر سناٹا
اور رُوح میں نغمے غم آگیں
دل کے سب زخموں کو اشکوں سے دھویا جائے
کچھ لمحوں کو چُپکے چُپکے رویا جائے
میں کور چشموں میں اب آئینے رکھوں گا کیا
کوئی پڑھے گا نہیں مجھ کو تو لکھوں گا کیا
میں دل سے تھوڑی یہ کہتا ہوں; تم بِچھڑ جاؤ
تمہارے ہجر کے صدمے میں سہہ سکوں گا کیا
کوئی جو پوچھے کہ شعر و سخن میں کیا پایا
تو سوچتا ہوں کہ اس کا جواب دوں گا کیا؟
میرے بن پڑے جو جینا
یہ زہر پڑے جو پینا
میرا پیار ساتھ رکھنا
یہی ہو گا پھر سفینہ
میری یادوں کے سہارے
کیا سمے بِتا سکو گے؟
غم کی پونجی تو گنوانے سے رہے
درد سے کہہ دو، ٹھکانے سے رہے
صدقۂ دولتِ ہجراں ہی سہی
اشک اب ہم تو بہانے سے رہے
اس محبت کو، عقیدہ نہ کریں
الجھنیں، اور بڑھانے سے رہے
ارمان، خواب راکھ کی صورت بکھر گئے
کل جب وہ صاف عہدِ وفا سے مُکر گئے
حق کے لیے بلند صدا جو ذرا سی کی
پتھر مِرے مکان کے اندر اُتر گئے
آفات کی گرفت میں آیا کھبی جو میں
سب آشنا نگاہیں چُرا کے گزر گئے
زندگی ہم تیری بے رُخی سے ڈر گئے
اس قدر کہ مرے بغیر موت سے گزر گئے
دل بوجھل ہے، فضا سوگوار ہے
ابھی کہاں آنکھوں سے دُکھ کے منظر گئے
سوگواری ہے، اداسی ہے اس قدر
کہ ہم خود سے بھی مُکر گئے
اس کی آنکھیں ہرے سمندر اس کی باتیں برف
پھر بھی نقشِ ہوا ہے دل پر اس کا اک اک حرف
کوئی بھرے کانٹوں سے دامن کوئی پھول چُنے
اپنا اپنا دامن سب کا،۔ اپنا اپنا ظرف
اس کی چاہ میں رانجھا بن کر بیلا بیلا گھومے
دھوپ کے اس صحرا میں اپنی عمر ہوئی ہے صَرف
آئینے کے رو برو اک آئینہ رکھتا ہوں میں
رات دن حیرت میں خود کو مبتلا رکھتا ہوں میں
دوستوں والی بھی اک خوبی ہے ان میں اس لیے
دشمنوں سے بھی مسلسل رابطہ رکھتا ہوں میں
روز و شب میں گھومتا ہوں وقت کی پرکار پر
اپنے چاروں سمت کوئی دائرہ رکھتا ہوں میں
ٹوٹتے خواب کی تعبیر سے اندازہ ہوا
مجھ کو شاید ذرا تاخیر سے اندازہ ہوا
دونوں جانب سے مسلمان تھے مرنے والے
آپ کو نعرۂ تکبیر سے اندازہ ہوا
میرے پُرکھوں کا مکاں مائل مسماری ہے
حبس میں ٹوٹتے شہتیر سے اندازہ ہوا
مجھے کچھ اور بھی تپتا سلگتا چھوڑ جاتا ہے
سحاب اکثر میرے سینے پہ دریا چھوڑ جاتا ہے
وہی اک رائیگاں لمحہ کہ میں جس کا شناور ہوں
نگاہوں میں مِری شہرِ تماشا چھوڑ جاتا ہے
گزرتا ہے جس آئینے سے بھی موسم شراروں کا
چمن کو ساتھ لے جاتا ہے صحرا چھوڑ جاتا ہے
تِرا لہجہ، تِری پہچان مبارک ہو تجھے
تِری وحشت تِرا ہیجان مبارک ہو تجھے
میں محبت کا پجاری ہوں، سو میں جاتا ہوں
یعنی، نفرت کا یہ سامان مبارک ہو تجھے
آنکھ میں طنز و رعونت کی چمک باقی رہے
لب پہ یہ تلخ سی مُسکان مبارک ہو تجھے
راہ ناہموار ہو تو منزلوں سے کھیلنا
پتھروں سے بچ کے چلنا آئینوں سے کھیلنا
ساحلوں کی ریت پر دو گام چل کے گر پڑے
گو مقدر میں لکھا تھا ساحلوں سے کھیلنا
زندگی اپنی تو ایسے مشغلوں میں کٹ گئی
روشنی سے دل لگانا، نکہتوں سے کھیلنا
پسِ آئینہ خد و خال میں کوئی اور تھا
کوئی سامنے تھا، خیال میں کوئی اور تھا
جو دنوں کے دشت میں چل رہا تھا وہ میں نہ تھا
جو دھڑکتا تھا مہ و سال میں کوئی اور تھا
کوئی اور تھا مِرے ساتھ دورِ عروج میں
مِرے ساتھ عہد زوال میں کوئی اور تھا
نہ ملاقات نہ دیدار کی حسرت کی ہے
میں نے اُس شخص سے پاکیزہ محبت کی ہے
میں نے رُخصت کیا ہے اُس کو کسی غیر کے ساتھ
میں نے ہم عصر عاشقوں سے بغاوت کی ہے
سگا ہے وہ میرا نہ خون کا رشتہ ہے کوئی
بات یہ ساری میرے دوست عقیدت کی ہے
ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
چلن یہ چلتے ہو عاشق کی جان جانے کا
قسم قدم کی تِرے جب تلک ہے دم میں دم
میں پاؤں پر سے تِرے سر نہیں اٹھانے کا
ہماری جان پہ گرتی ہے برق غم ظالم
تجھے تو سہل سا ہے شغل مسکرانے کا
ہے مکمل مگر ادھورا ہے
زیست کا یہ سفر ادھورا ہے
يہ مکينوں کی مہربانی ہے
سب کو لگتا جو گھر ادھورا ہے
اس کے الفاظ پُرکشش ہوں گے
وہ سخنور مگر ادھورا ہے
گیت
نیناں روئیں آج
بالم اکھین جوت جگا جا
من بگیا کی آگ بجھا جا
پھر ہردے کی راکھ سمیٹیں
پِیت کا ڈھوئیں ساج
نیناں روئیں آج
غم جاناں کے سوا کچھ ہمیں پیارا نہ ہوا
ہم کسی کے نہ ہوئے کوئی ہمارا نہ ہوا
کیا اسی کا ہے وفا نام محبت ہے یہی
مہرباں ہم پہ کبھی وہ ستم آرا نہ ہوا
لاکھ طوفان حوادث نے قدم تھام لیے
میری غیرت کو پلٹنا بھی گوارا نہ ہوا
قدم رکھ دیا ہم نے راہِ وفا پر
اسے پا لیا ہم نے سب کچھ بھلا کر
یہ احساس ہے صبر کرنے کو کافی
کہ کچھ تو ملا ہے ہمیں کچھ گنوا کر
کہاں جاتے ہیں یہ چلے جانے والے
بتاؤ تو پوچھیں کہاں کس سے جا کر
رنجشیں سب چھوڑ دیں سب سے لڑائی چھوڑ دی
عیب تھا سچ بولنا،۔ میں نے بُرائی چھوڑ دی
کُوئے جاناں میں بھلا اب دیکھنے کو کیا ملا
سُن رہا ہوں آپ نے بھی بے وفائی چھوڑ دی
ذہن میں اُبھرے تھے یوں ہی بے وفا یاروں کے نام
لکھتے لکھتے کیوں قلم نے روشنائی چھوڑ دی
اور کیا اس کے سوا ہو جائے گا
حد سے حد تُو بے وفا ہو جائے گا
آئینہ دیکھا نہ کر یوں بار بار
ورنہ یہ بھی سر پھرا ہو جائے گا
مانگ کر پہنی ہوئی دستار سے
سوچتا ہے وہ بڑا ہو جائے گا
باتیں جو تھیں درست پرانے نصاب میں
ان میں سے ایک بھی تو نہیں ہے کتاب میں
محرومیوں نے بزم سجائی ہے خواب میں
سب کے الگ الگ ہیں مناظر سراب میں
پانی کی طرح اہلِ ہوس نے شراب پی
لکھی گئی ہے تشنہ لبوں کے حساب میں
یہ ہے مِری نظروں کی مناجات کا عالم
ذرّے بھی دکھاتے ہیں سماوات کا عالم
پُر نُور تِرے حُسن سے آغوش تصور
دُوری میں بھی حاصل ہے ملاقات کا عالم
ایماء کا ہے فیضان کہ احساس کا احسان
ایک ایک جفا میں ہے مدارات کا عالم
ہم پارہ صفت لوگ ہیں پانی کی طرح ہیں
ڈھلتی ہوئی عمروں میں جوانی کی طرح ہیں
ہم فردا و اِمروز سے آگے کے مسافر
ٹھہرے ہوئے لگتے ہیں روانی کی طرح ہیں
بالوں میں اُترتے ہوئے چاندی کے اُجالے
گردِ مہ و انجم کی نشانی کی طرح ہیں
شام تنہا
شامِ تنہا یونہی چپ چاپ اندھیرے لے کر
گھر کے اندر ہی چلی آئی ہے
بتیاں گُل کیۓ ہم بیٹھے رہے
شام کو اور کچھ اُداس کریں
رنج اور غم کو پاس پاس کریں
شال فلک کی چھوڑیں جی
اپنی مٹی اوڑھیں جی
میں خوابِ خرگوش میں ہوں
مجھ کو ذرا جھنجھوڑیں جی
پیر جی! روٹی کھانی ہے
کیا اب چِلّہ توڑیں جی؟
خواب تعبیر میں ڈھلتے ہیں یہاں سے آگے
آ نکل جائیں شبِ وہم و گماں سے آگے
رنگ پیراہنِ خاکی کا بدلنے کے لیے
مجھ کو جانا ہے ابھی ریگِ رواں سے آگے
اک قدم اور سہی شہرِ تنفس سے اُدھر
اک سفر اور سہی کوچۂ جاں سے آگے
لہو میں پھول کھلانے کہاں سے آتے ہیں
نئے خیال نہ جانے کہاں سے آتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں؟ ہر شام طاق مژگاں پر
چراغ یاد جلانے کہاں سے آتے ہیں؟
خزاں کی شاخ میں حیراں ہے آنکھ کی کونپل
پلٹ کے عہد پرانے کہاں سے آتے ہیں
پھر سے مدہوش ہوئے، بہکے، بڑے بَین کیے
وہ بہت ہنسے میاں ہم نے بڑے بین کیے
کل وہاں عشق کے ماروں کی عزاداری تھی
اور ہم نے بھی وہاں جا کے بڑے بین کیے
ایک وہ ایک کہ جو پھر سے اداکار بنا
ایک یہ لوگ کہ جو سمجھے، بڑے بین کیے
کُھلی کھڑکی سے دن بھر جھانکتا ہوں
میں ہر چہرے میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں
تجھے میں کس طرح پہچان پاؤں
کہ اپنے آپ سے نا آشنا ہوں
جہاں انسان پتھر ہو چکے ہیں
میں اس بستی میں کیسے جی رہا ہوں
نگاہ اُٹھا کے وہ محفل میں جب سلام کرے
ہوش والوں کی مدہوشی کا انتظام کرے
ہر ایک شخص کو نِسبت بتانی پڑتی ہے
کون پاگل تمہارے شہر میں قیام کرے
ایک خواہش ہے میرے دل میں کہ وہ مہ جبیں
ملا کے نظر کبھی مجھ سے بھی کلام کرے
پوچھی نہ خبر کبھی ہماری
لی خوب خبر اجی ہماری
ہم لائقِ بندگی نہیں تو
بس خیر ہے بندگی ہماری
اے دیدۂ نم نہ تھم تو ہرگز
ہے اس میں ہی بہتری ہماری
کسی چائے پانی کے انتظام میں لگ گئی
تِری یاد آئی تو اُٹھ کے کام میں لگ گئی
یہ صعوبتیں یہ اذیتیں ہی کمائی تھیں
مِری ساری پونجی مِرے کلام میں لگ گئی
جو دوام ہو مجھے ایسا قرب نواز تو
کہ خوشی وصال کی ایک شام میں لگ گئی
میں اسمِ اعظم کا وِرد کر کے یہ جِن نکالوں تو مارا جاؤں
کہ اپنے دل سے اگر محبت کی پِن نکالوں تو مارا جاؤں
مٹاؤں کیسے میں زائچوں سے کہ زندگی جن پہ کٹ رہی ہے
میں جنتری سے وصال رُت کے وہ سِن نکالوں تو مارا جاؤں
شگون اچھا ہے پر پرندہ تمہارے ہاتھوں میں پھنس گیا ہے
ہے فال ایسی کہ اب رہائی کا دن نکالوں تو مارا جاؤں
سمندراااااااا (سلویا پلاتھ کے لیے)
وہ کارواں
کبود رنگ کارواں بھٹک چکے ہیں
دوریوں کے پیچواں سراب میں
گھنیری شب کے باغ سے
تجھے پکارتا ہوں میں
کمال ضبط میں یہ رکھ رکھاؤ دیکھا ہے
جو ہم نے سینچا ہے، سرسبز گھاؤ دیکھا ہے
تھی جس میں لاگ، تمہارا لگاؤ دیکھا ہے
وہ جس کو پیار سمجھتے ہو جاؤ دیکھا ہے
جلا کے راکھ کرے گا یہ سرد مہری تِری
مِرے وجود میں جلتا الاؤ دیکھا ہے؟
اک کام تِرے ذمے نمٹا کے چلے جانا
میں بیٹھا ہی رہ جاؤں تم آ کے چلے جانا
دل کو ہے یہ خوش فہمی کہ رسمِ وفا باقی
ہے ضد پہ اڑا اس کو سمجھا کے چلے جانا
سیکھا ہے یہی ہم نے جو دل کو پڑے بھاری
اس رتبے کو عہدے کو ٹھکرا کے چلے جانا
ہر شام شفق پر میں بھٹکوں, ہر رات ستارہ ہو جاؤں
جو کنکر بن کر چبھتا ہے وہ خواب تمہارا ہو جاؤں
مِرے اشک تمہاری آنکھوں میں اک روز کبھی رستہ پا لیں
تم ڈوب کے مجھ میں یوں ابھرو میں ندی کنارہ ہو جاؤں
پھر قطرہ قطرہ بہہ جائے تری باتوں سے تری آنکھوں سے
تِرا دل ایسے پانی کر دوں میں برف انگارہ ہو جاؤں
اس شہر کے لوگ بھی کیا خوب سخاوت کرتے ہیں
کانٹوں کے عوض پھولوں کی یہ تجارت کرتے ہیں
جس دیس میں مظلوم کی نہ ہو کوئی داد رسی
اس دیس کے ہر قانون سے ہم بغاوت کرتے ہیں
زرد چہروں پر لکھی ہے کرب و عسرت کی تحریر
خنجرِ جبر و ستم سے ظلم عبارت کرتے ہیں
جب ملیں گے کہ اب ملیں گے آپ
نہیں معلوم کب ملیں گے آپ
جائیے،۔ جائیے،۔ خدا حافظ
دیکھیے بچھڑے کب ملیں گے آپ
حشر میں آپ ہی ملیں گے کیا
ایک سے ایک سب ملیں گے آپ
ہوا سے کس لیے یاری نہیں کرتے
چراغو کیوں سمجھداری نہیں کرتے
ارادہ کرتے ہی ہم کوچ کرتے ہیں
سفر کی کوئی تیاری نہیں کرتے
تعلق ٹوٹتے جڑتے ہی رہتے ہیں
میاں اس طرح جی بھاری نہیں کرتے
کاش
اے مِرے رہنمائے قوم
کام کرے نہ جب دماغ
منہ کا دیں کان ساتھ کیوں؟
کیسے نہ ڈگمگائیں پیر
کھوئیں نہ ربط ہاتھ کیوں؟
اے مِرے رہنمائے قوم
دو جُھکی آنکھوں کا پہنچا جب مِرے دل کو سلام
یوں لگا ہے دوپہر میں جیسے در آئی ہو شام
اس کے ہونٹوں کا کیا جب ذکر میرے شعر نے
ہر سماعت کے لبوں سے جا لگا لبریز جام
جیسے سجدے میں کوئی گر کر نہ اٹھے دیر تک
یوں گری آنکھوں پہ پلکیں سن کے اک کافر کا نام
پھر آیا جام بکف گل عذار اے واعظ
شکست توبہ کی پھر ہے بہار اے واعظ
نہ جان مجھ کو تو مختار سخت ہوں مجبور
نہیں ہے دل پہ مِرا اختیار اے واعظ
انارِ خلد کو تو رکھ کے ہیں پسند ہمیں
کچیں وہ یار کی رشکِ انار اے واعظ
آپ جب بھی کبھی مسکرانے لگے
درد جتنے تھے میرے سہانے لگے
رات پوری کھڑی ہے ابھی صحن میں
تارے مجھ کو ابھی سے جگانے لگے
خواب جلتے ہوئے رکھ دئیے راہ پر
بے سہارا تھے وہ سب ٹھکانے لگے
بے چینی
کیا تم نے بے چینی کا حُلیہ دیکھا ہے
مکڑی کے جیسی ہوتی ہے
دیواروں پر جالے بُنتی رہتی ہے
بے ڈھبے جسم اور لمبی ٹانگوں والی مکڑی
صاف گھروں میں جانے کہاں سے گھس آتی ہے
دیکھتے دیکھتے اس کی ٹانگیں زیادہ لمبی ہو جاتی ہیں
بحرِ آلام ملے
چاہے تِرے نام کا الزام ملے
دل کو یہ دُھن ہے کہ اب تُو ہی سرِ عام ملے
چشمِ بیمار کو اے جان! فقط مثلِ دوا
تُو سرِ صبح ملے، تُو ہی سرِ شام ملے
اک تِرے لمس سے دُوری بھی بدن توڑتی ہے
تمہارے پاس آ کے سب کو بھولتا جاؤں
تمہارے لب کو چوموں اور چومتا جاؤں
تیرے بدن کو دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے
تیرے بدن کے خد و خال گھومتا جاؤں
تیرے بدن کے ہر حصے میں ہے بلا کا حسن
میرا دل کرتا ہے یہ حسن ڈھونڈتا جاؤں
میں نے چاہت کے گیت گائے تھے
سننے والے مگر پرائے تھے
عمر بھر کو خوشی کا روگ لگا
ایک دو دن کو مسکرائے تھے
راحتیں ہی نہ کر سکے حاصل
راحتوں کے محل بنائے تھے
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِی الْأَبْصَارِ
سیارے پر بہت ہی سخت دن آئے ہوئے ہیں
خواب بچے ہیں
ڈرے سہمے گھنی پلکوں کے پیچھے
چھپ کے بیٹھے ہیں
ذرا جُنبش نہیں کرتے
بہت سی ان کہی نظمیں ہراساں ہیں
شراب و شیشہ و ذکر بتاں کا وقت نہیں
اٹھو اٹھو کہ یہ خوابِ گراں کا وقت نہیں
زمانہ ڈھونڈ رہا ہے عمل کا شیدائی
خطا معاف یہ حسنِ بیاں کا وقت نہیں
روش روش پہ خزاں کی نقیب ہے یارو
چمن بچاؤ، غمِ آشیاں کا وقت نہیں
خوشبوؤں کی دشت سے ہمسائیگی تڑپائے گی
جس کو بھی حاصل ہوئی یہ آگہی تڑپائے گی
روشنی کو گنگ ہوتے جس نے دیکھا ہو کبھی
کس حوالے سے اسے تیرہ شبی تڑپائے گی
کاڑھتا تھا میں ہی سنگ سخت پر ریشم سے پھول
کیا خبر تھی یہ نظر شائستگی تڑپائے گی
ان آنکھوں سے پہلے بھی کہیں بات ہوئی ہے
سوچوں گا کہاں تم سے ملاقات ہوئی ہے
تقدیسِِ محبت پہ کہیں حرف نہ آئے
تسکینِ ہوس شاملِ جذبات ہوئی ہے
یہ روشنی شائستہ اجالوں کا ہے دھوکہ
اے دوست ابھی ختم کہاں رات ہوئی ہے
جنہیں وہ درہم و دینار گِن رہے ہیں میاں
ہم ایسی چیزوں کو آزار گن رہے ہیں میاں
یہ سوچ کر کہ اضافہ ہو گھر کی چیزوں میں
اک ایک چیز کئی بار گن رہے ہیں میاں
تو پھر یہ ہجر کے دن ختم کیوں نہیں ہوتے
میں اور وہ تو لگاتار گن رہے ہیں میاں
محبت کا ابارشن
تمہیں پتا ہے محبت کیا ہے
نہیں
میں بتاتا ہوں تمہیں
پچھلے دسمبر تک یہ جذبہ مجھ میں اس قدر تھا کہ
میری قلب دانی میں محبت کا حمل ٹھہر گیا
اب تو اکثر یہ سوچتی ہوں میں
کیا تِرے دل میں واقعی ہوں میں
وقتِ آخر میں ملنے والے شخص
تجھ کو صدیوں سے جانتی ہوں میں
میرے ماتھے کی شکنیں جانتی ہیں
کس قدر تجھ کو سوچتی ہوں میں
یقیں کے واسطے دل میں گُماں ہو
شرر ہو بعد میں پہلے دُھواں ہو
محبت کامیاب و کامراں ہو
کوئی بچہ ہمارے درمیاں ہو
خموشی رات سے گھیرے ہوئے ہے
مِری آواز کے پنچھی کہاں ہو
ہے شہرِ خموشاں کی جائے مِرا دل
تو کیا سوچ کر مسکرائے مرا دل
جدا ہو گئے ہم جو اک دوسرے سے
ہوا کتنا مجبور ہائے مرا دل
محبت کی قسمت میں رُسوائیاں ہیں
کسے قصۂ غم سنائے مرا دل
صبر اور ضبط کی دیوار اٹھائی جائے
سینہ دُکھتا ہے دُکھے، آہ دبائی جائے
فکر کے بیج سے اب پُھوٹے عمل کی کونپل
فلسفے تک نہ رہے بات، نبھائی جائے
یا تو وعدہ نہ کرو، کر لو تو پھر یاد رکھو
جان جائے کہ رہے، بات نبھائی جائے
نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے
قریب و دُور مِرے بخت کی سیاہی ہے
افق کے پار کبھی دیکھنے نہیں دیتی
شریک راہ امیدوں کی کم نگاہی ہے
بھرا پرا تھا گھر اس کا خوشی کے میلے سے
یہ کیا ہوا کہ وہ اب راستہ کا راہی ہے
لڑکیاں بہت سوچتی ہیں
جو سانسیں ختم ہونے کو ہیں
انہیں کوئی ہماری جگہ جی لینے کی خواہش کرتا
تو ہم اسی وقت خوشی سے مر جاتیں
وقت کی ڈرپ سے بہتا پانی
خاموشی کی اوک میں بھر کر
مرحلہ
میری ہر اک نظر نے سجدہ کیا
رونقِ حسن و جان روئے نگار
پھر بھی جنبش نہ ہو سکی تجھ کو
کتنا مضبوط ہے تِرا کردار
کیا خبر تجھ کو پیار ہو کہ نہ ہو
ہوں تِری ہر خوشی کے ساتھ مگر
تجھے خبر کہاں؟
کہ جو اک شخص
تیری تلاش میں صدیوں سے
پرائی راہوں کی
دُھول چھانٹ رہا تھا
مر گیا کل شب
فضائے خُلد کو اپنے خلاف کون کرے
جمالِ یار سے اب انحراف کون کرے
منائے کون اسے، وہ اگر خفا ہی نہ ہو
خطا نہ ہو تو کسی کو معاف کون کرے
نظر کی کار گُزاری ہی جب نہ ہو بس میں
پھر آئینے سے بھلا اختلاف کون کرے
سمجھ سکو تو بتانا کہ وہ کہاں نہیں ہے
اگر سمجھ میں وہ آئے، سمجھ لو ہاں، نہیں ہے
ہے ایک تنگئ امکان، جبر کا عالم
مِرے لیے جو بنا تھا یہ وہ جہاں نہیں ہے
وریدِ جاں سے الجھ کر گِرا ہوں سجدے میں
سنا ہے اس کے سوا کوئی بھی یہاں نہیں ہے
ہم سے یوں بے رخی سے ملتے ہیں
جس طرح ہر کسی سے ملتے ہیں
لب تِرے پنکھڑی سے ملتے ہیں
بول اک راگنی سے ملتے ہیں
یہ شہر پتھروں کا جنگل ہے
آشنا اجنبی سے ملتے ہیں
اب کے وہ بس چیختا ہے
دشت دریا مانگتا ہے
رات رونے پر تُلی ہے
دن کا چہرہ بھی تھکا ہے
ہاتھ دھوئے سب نے ہی پر
خون پیڑوں پر جما ہے
ترس کھایا ہوا اغیار کا سنبھالا ہوا
دربدر پھرتا ہوں جنت سے میں نکالا ہوا
اسی کی مہر سے جیون میں ہے اندھیر پڑا
جس کے آنے سے میری زیست میں اُجالا ہوا
اپنے بچے کا نام میرے نام پر رکھ کر
وہ سمجھتی ہے بے وفائی کا ازالہ ہوا
خزاں کا ذکر نہ ذکرِ بہار کرتے رہے
تجھی کو تیری نگاہوں سے پیار کرتے رہے
متاعِ درد کہ بڑھتی رہی نہ جانے کیوں
علاجِ درد مِرے غم گسار کرتے رہے
دیار حسن کے جلوے تھے خوب تر لیکن
مِری نظر کے لیے انتظار کرتے رہے
مِرے خیال میں ایک عارضی سہارا تھا
مگر وہ شخص مِرا دائمی سہارا تھا
میں اک حسیں کی بدولت ہُوا اُجالا شناس
وگرنہ، پہلے مِرا تیرگی سہارا تھا
تجھے میں کتنی دلیلیں دوں اپنی چاہت کی
یقین کر تُو مِرا واقعی سہارا تھا
یہ کیسے وسوسوں میں مبتلا ہوں
تِرا ہوتے ہوئے تجھ سے جدا ہوں
میں اپنے آپ سے اُلجھا ہوا ہوں
یہ کس نے کہہ دیا تجھ سے خفا ہوں
کوئی تو ہے جو مجھ کو چاہتا ہے
کسی لب پر کھلا حرفِ دُعا ہوں
شدت تشنہ لبی میں پوچھ مت کیا کیا لگا
جس کو تو قطرہ سمجھتا تھا مجھے دریا لگا
سچ کے ہم کل بھی امیں تھے آج بھی ہم ہیں امیں
آئینوں کو پتھروں سے جنگ کب اچھا لگا
حادٿوں کی زد سے غیروں نے بچایا جب مجھے
گو کہ ہر چہرہ تھا بے گانہ مگر اپنا لگا
پہلی فرصت میں اور پہلی تعطیل پر
ہم سے مل آ کے رتّی گلی جھیل پر
ایک جنت میں میں منتظر ہوں تِرا
شہد کی نہر کے سولہویں میل پر
ایک بوسہ سمیٹے گا ہر بحث کو
بات بگڑی زیاده جو تفصیل پر
نہیں قبول مجھے آفتاب کی مرضی
مِری زمیں پہ چلے گی جناب کی مرضی
یہ خودکشی نہیں تاثیر ہے محبت کی
خود اپنا خون کرے گر گلاب کی مرضی
اٹھا کے رات کی باہوں میں اس کو ڈال دیا
کسی نے پوچھی نہیں ماہتاب کی مرضی
بلوریں عکس تمہارا دکھا رہا ہے مجھے
کئی دنوں سے یہ دریا بُلا رہا ہے مجھے
مِری اُداسی کے پنچھی بتا رہے ہیں
کہیں اکیلے بیٹھ کے وہ گُنگنا رہا ہے مجھے
میں کوئی قرض ہوں کاندھوں پہ وقت کے شاید
کہ لمحہ لمحہ مسلسل چکا رہا ہے مجھے
پہلے پہل تو عشق کو رکھا اسیرِ دام
پھر یوں کہا گیا تھا کہ؛ آزاد ہے غلام
روشن کیے ہی جاؤ تم مشعل وصال کی
اک دن تو ختم ہو گا شبِ ہجر کا ظلام
اے کاش اس طرح کا کبھی حادثہ تو ہو
ہو ذکر آپ کا جہاں، آئے ہمارا نام
وقت بدلا تو حور کہنے لگے
پھر سراپا ہی نور کہنے لگے
جاہ و منصب ملا تھا بونوں کو
لوگ ان کو حضور کہنے لگے
جو ملاقات کی جگہ ٹھہری
لوگ اس کو ہی طور کہنے لگے
تم تھے اور آلام بہت تھے
اور وہ صبح و شام بہت تھے
تجھ میں بھی کچھ بات ہے ورنہ
دیوانے بدنام بہت تھے
میں ہی رہا اک پیاس کا مارا
مےخانے میں جام بہت تھے
منسلک ہو کر تمہارے نام سے
مطمئن ہوں گردشِ ایام سے
ہے تصور میں تِرے گیسو کی چھاؤں
نیند آئی ہے بڑے آرام سے
آج تنہا آپ ہی رسوا نہیں
ہو گئے ہیں ہم بھی کچھ بدنام سے
اسے جیتنے کی عادت تھی
اس لیے
میں ہار جاتی تھی
اور ہاں ہار کر
خوش بھی رہتی تھی
مگر وہ آخری مات
آج مقتل میں خبر ہے کہ چراغاں ہو گا
گر یہ سچ ہے تو مِرے قتل کا ساماں ہو گا
آج کھلیں گے مِرے خون سے ہولی سب لوگ
کتنا رنگین ہر اک شخص کا داماں ہو گا
آج وہ پھول چڑھائیں گے مِری تربت پر
رشک گلزار جناں مرقد ویراں ہو گا
جہاں بھی تیسرے چہرے کا خدشہ رکھے گا
خدا وہاں پہ بچھڑنے کا خطرہ رکھے گا
بچھڑتے وقت گلے سے لگایا تھا تجھ کو
یہی خیال گھٹن میں بھی زندہ رکھے گا
تِری چمک مِری بینائی ہضم کر گئی ہے
ہمیشہ مجھ کو تُو ایسے ہی اندھا رکھے گا
پل بھر میں برسوں کا رشتہ توڑ دیا
پتھر دل نے آخر شیشہ توڑ دیا
دیکھ کے اس کو پھِر دانستہ دیکھ لیا
اک لغزش نے میرا روزہ توڑ دیا
شاید اس کی فطری غیرت جاگ اٹھے
ہم نے اک سائل کا کاسہ توڑ دیا
دیا دل مجھ کو تُو نے اور دل کو کامرانی دی
کروں میں ناز جس پر تُو نے ایسی زندگانی دی
تِری فیاضیاں ہیں موج اندر موج کیا کہنا
طبیعت دی طبیعت میں سمندر کی روانی دی
تفکر کے لیے کیا کیا جنوں انگیزیاں بخشی
تخیل کے لیے کیسی فضائے لامکانی دی
ہاتھ کب اپنے لگا میں
عمر بھر چھپتا پھرا میں
انتظار اپنا رہا ہے
جاگتا شب بھر رہا میں
چھپ نہ پاؤ گے کہیں بھی
چار سو ہوں جا بجا میں
کھوئے ہوئے پلوں کی کوئی بات بھی تو ہو
وہ مل گیا ہے اس سے ملاقات بھی تو ہو
برباد میں ہُوا، تو یہ بولا امیرِ شہر
کافی نہیں ہے اتنا، فنا ذات بھی تو ہو
دنیا کی مجھ پہ لاکھ نوازش سہی مگر
میری ترقیوں میں ترا ہات بھی تو ہو
دل شکستہ سا خواب کیوں دیکھا
ایسا میں نے عذاب کیوں دیکھا
منزلوں نے کہا مسافت سے
راہ میں اک سراب کیوں دیکھا
صبر میرا ہی جرم تھا میرا
ضبط یہ لاجواب کیوں دیکھا
بڑا اندھیر ہے ظلمات کے علاوہ بھی
حصارِ تیرگی ہے رات کے علاوہ بھی
کشاں کشاں لیے چلتی ہے کوئی مجبوری
ستم ظریفئ حالات کے علاوہ بھی
تو جیت جاتا کوئی اور چال چل کر بھی
میں ہار جاتا کسی مات کے علاوہ بھی
بیلیا! دل میں یاد رچی ہے، ماتھے پہ یکتائی ہے
دل میں وِرد چلا ہے ہُو کا وِرد بھی جو مولائی ہے
ہجر کی چوٹ سے زیادہ گہرا اس ہجرت کا گھاؤ ہے
ایک تو صدیوں بوڑھا گاؤں، اوپر سے آبائی ہے
عشق کی تیز اگن میں جلتا نہر کنارے بیٹھا چاند
جس کے ماتھے پر لکھا ہے؛ حسن بڑا ہرجائی ہے
کب زُلف دوتا ان کی پریشان نہیں ہے
کب وحشت دل کا مِری سامان نہیں ہے
یادوں کو لگائے ہوئے سینے سے گزر جا
یہ راہِ محبت ہے کچھ آسان نہیں ہے
دنیا میں مجھے دولتِ جاوید ہے حاصل
کیا دل میں مِرے آپ کا ارمان نہیں ہے