Wednesday 25 August 2021

باتیں جو تھیں درست پرانے نصاب میں

 باتیں جو تھیں درست پرانے نصاب میں

ان میں سے ایک بھی تو نہیں ہے کتاب میں

محرومیوں نے بزم سجائی ہے خواب میں

سب کے الگ الگ ہیں مناظر سراب میں

پانی کی طرح اہلِ ہوس نے شراب پی

لکھی گئی ہے تشنہ لبوں کے حساب میں

سب نام ہیں درست، مگر واقعہ غلط

ہر بات سچ نہیں جو لکھی ہے کتاب میں

صد آتشہ اگر ہو تِرا رنگ روپ ہے

جو رنگ پھول میں ہے نشہ ہے شراب میں

اس کا تو ایک لفظ بھی ہم کو نہیں ہے یاد

کل رات ایک شعر کہا تھا جو خواب میں

کچھ شعر شاید اس کو پسند آ گئے کمال

ہونٹوں کے کچھ نشاں ہیں تمہاری کتاب میں


کمال احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment