Monday 30 August 2021

اک پیکر افکار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں

 اک پیکرِ افکار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں

میں صاحبِ کردار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں

عورت ہوں مگر مرد سے کمتر بھی نہ جانو

میں ناؤ کی پتوار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں

اجداد کی شفقت و رفاقت میں پلی ہوں

شیریں دم گفتار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں

پہچانو مِرے جذبوں کی سچائی سے مجھ کو

سر تا پا وفادار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں

یہ روشنی مجھ کو میرے مولا کی عطا ہے

اک ذرۂ انوار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں

خود دیں گے گواہی مِرے اشعار یہ اک دن

میں ان کی علمدار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں

کرتی ہوں تکبر کے خداؤں سے میں نفرت

راحت کی طلبگار ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں


راحت زاہد

No comments:

Post a Comment