نہ رہبر نے نہ اُس کی رہبری نے
مجھے منزل عطا کی گُمرہی نے
بنا ڈالا زمانے بھر کو دُشمن
فقط اک اجنبی کی دوستی نے
وہ کیوں محتاج ہو شمس و قمر کا
جِلا بخشی ہو جس کو تیرگی نے
بدن کانٹوں سے کر ڈالا ہے چھلنی
ہمارا گُل رُخوں کی دوستی نے
بدل ڈالا مذاق گُل پرستی
چمن میں ادھ کھلی سی اک کلی نے
قیامت بن گئی رحمت سراپا
کیا کیا آپ کی ہمسائیگی نے
شکایت برق کی اے برق! کیسی؟
مجھے پُھونکا ہے گُل کی پنکھڑی نے
برق پونچھوی
(شِو رتن لال)
No comments:
Post a Comment