Sunday 29 August 2021

میں نے دیکھا ہے تجھ کو اکثر یوں

 مسیحائی


میں نے دیکھا ہے تجھ کو اکثر یوں

خوبصورت سی تیری آنکھوں میں

سُرمئ شام کی اداسی ہے

رُخ پہ گردِ ملال کی صورت

اک پریشاں خیال کی صورت

جانے کس نام کی اُداسی ہے

کون سا دُکھ ہے، مُضطرب کیوں ہے

کیا کوئی زخم بن گیا ناسُور

تُو کہ سر تا قدم تھی کیف و سرور

آ کہ ہر غم کو تیرے بانٹ لوں میں

اپنا ہر درد سونپ دے مجھ کو

میں مسیحا نہیں، مگر جاناں

تیرے ہر زہرِ غم کو پی لوں گا

تجھ کو خوش دیکھ کر میں جی لوں گا

اپنا سرمایۂ نشاط و سرور

میں تِرے دل میں سب کے سب رکھ دوں

تیرے زخموں پہ اپنے لب رکھ دوں


انس مسرور

No comments:

Post a Comment