مسیحائی
میں نے دیکھا ہے تجھ کو اکثر یوں
خوبصورت سی تیری آنکھوں میں
سُرمئ شام کی اداسی ہے
رُخ پہ گردِ ملال کی صورت
اک پریشاں خیال کی صورت
جانے کس نام کی اُداسی ہے
کون سا دُکھ ہے، مُضطرب کیوں ہے
کیا کوئی زخم بن گیا ناسُور
تُو کہ سر تا قدم تھی کیف و سرور
آ کہ ہر غم کو تیرے بانٹ لوں میں
اپنا ہر درد سونپ دے مجھ کو
میں مسیحا نہیں، مگر جاناں
تیرے ہر زہرِ غم کو پی لوں گا
تجھ کو خوش دیکھ کر میں جی لوں گا
اپنا سرمایۂ نشاط و سرور
میں تِرے دل میں سب کے سب رکھ دوں
تیرے زخموں پہ اپنے لب رکھ دوں
انس مسرور
No comments:
Post a Comment