غم کی گہرائی میں گم دل ہے دھڑکنے والا
میرے احساس کا پیالہ ہے چھلکنے والا
ایک امید پہ اک چہرے کو تکنے والا
میں وہی ہوں تِری دنیا سے نکلنے والا
روح اک جاتی ہے پھر توڑ کے زنجیرِ خرد
پھر ہے زنداں سے کوئی جسم نکلنے والا
جس نے اب نیند اڑا دی ہے تِری آنکھوں سے
میرے سینے میں یہی درد تھا پلنے والا
تم نے سمجھا ہی نہیں گرمئ دوراں کا مزاج
ایک شعلہ ہے درِ خاک بھڑکنے والا
سرمئ رنگِ اداسی ہے تِری آنکھوں میں
آج بادل ہے کوئی کُھل کے برسنے والا
آگ نفرت کی نہ بجھ پائی تو یوں ہو گا نسیم
راکھ کر دے گا لہو آنکھوں سے رِسنے والا
نسیم بیگم
No comments:
Post a Comment