Sunday 29 August 2021

غم کی گہرائی میں گم دل ہے دھڑکنے والا

 غم کی گہرائی میں گم دل ہے دھڑکنے والا

میرے احساس کا پیالہ ہے چھلکنے والا 

ایک امید پہ اک چہرے کو تکنے والا 

میں وہی ہوں تِری دنیا سے نکلنے والا 

روح اک جاتی ہے پھر توڑ کے زنجیرِ خرد

پھر ہے زنداں سے کوئی جسم نکلنے والا

جس نے اب نیند اڑا دی ہے تِری آنکھوں سے

میرے سینے میں یہی درد تھا پلنے والا

تم نے سمجھا ہی نہیں گرمئ دوراں کا مزاج

ایک شعلہ ہے درِ خاک بھڑکنے والا

سرمئ رنگِ اداسی ہے تِری آنکھوں میں

آج بادل ہے کوئی کُھل کے برسنے والا

آگ نفرت کی نہ بجھ پائی تو یوں ہو گا نسیم

راکھ کر دے گا لہو آنکھوں سے رِسنے والا


نسیم بیگم

No comments:

Post a Comment