پیچ کھاتی ہے بہت پاگل ہوا
دیکھتی ہے جب کوئی جلتا دِیا
سنگِ مر کی سِلوں کو کیا خبر
بارش اور مٹی کا یہ رشتہ ہے کیا
پہلے بھی وہ سر نہ تھا کچھ کم بلند
کٹ گیا تو اور اونچا ہوگیا
ہے تقاضا عدل کا شاہیں بنے
کل کسی اگلے جنم میں فاختہ
اک ہتھیلی کی بنا رکھی ہے اوٹ
دوسری پر ہے مِری جلتا دِیا
کچھ گِلہ ہوتا ہے اس کو عرش سے
بے سبب ہوتا نہیں تارا جدا
وہ سجھاتا ہے مجھے مضموں نئے
دل کی مسند پر ہے جو بیٹھا ہوا
یہ بپا ہوتی ہے ثاقب آج بھی
استعارہ بن گئی ہے کربلا
منظور ثاقب
No comments:
Post a Comment