حدِ ستم نہ کر کہ زمانہ خراب ہے
ظالم خدا سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے
اتنا نہ بن سنور کہ زمانہ خراب ہے
میلی نظر سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے
بہنا پڑے گا وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ
بن اس کا ہم سفر کہ زمانہ خراب ہے
پھسلن قدم قدم پہ ہے بازارِ شوق میں
چل دیکھ بھال کر کہ زمانہ خراب ہے
کچھ ان پہ غور کر جو تقاضے ہیں وقت کے
ان سے نباہ کر کہ زمانہ خراب ہے
آ غرقِ جام کر دیں ملے ہیں جو رنج و غم
پیمانہ میرا بھر کہ زمانہ خراب ہے
گر بے ٹھکانہ ہیں تو نہیں شرمسار ہم
اب کیا بنائیں گھر کہ زمانہ خراب ہے
محنت، شعور، تجربہ، تعلیم و تربیت
سب کچھ ہے بے اثر کہ زمانہ خراب ہے
دو روٹیاں نہیں نہ سہی، ایک ہی سہی
اس پر ہی صبر کر کہ زمانہ خراب ہے
شباب للت
No comments:
Post a Comment