Tuesday, 31 August 2021

اسی لیے تو ہر اک ہمزبان اس کا تھا

 اسی لیے تو ہر اک ہم زبان اس کا تھا

کہ گاؤں میں جو تھا پختہ مکان، اس کا تھا

اب اس کے حکم پہ بھی راستے بدلنے تھے

کہ ناؤ میری تھی، اور بادبان اس کا تھا

جبھی تو چھاؤں میں اِک دھوپ سی تمازت تھی

کہ میرے سر پہ جو تھا سائبان، اس کا تھا

بتاؤ بچوں کو، کالی کریں‌ نہ دیواریں

وہ کہہ بھی سکتا تھا آخر مکان اس کا تھا

اسی طرح سے سجایا تھا اپنا گھر پرویز

میں پھول لایا مگر پھولدان اس کا تھا


پرویز اختر

No comments:

Post a Comment