اسی لیے تو ہر اک ہم زبان اس کا تھا
کہ گاؤں میں جو تھا پختہ مکان، اس کا تھا
اب اس کے حکم پہ بھی راستے بدلنے تھے
کہ ناؤ میری تھی، اور بادبان اس کا تھا
جبھی تو چھاؤں میں اِک دھوپ سی تمازت تھی
کہ میرے سر پہ جو تھا سائبان، اس کا تھا
بتاؤ بچوں کو، کالی کریں نہ دیواریں
وہ کہہ بھی سکتا تھا آخر مکان اس کا تھا
اسی طرح سے سجایا تھا اپنا گھر پرویز
میں پھول لایا مگر پھولدان اس کا تھا
پرویز اختر
No comments:
Post a Comment