بہت نایاب ہوتی جا رہی ہے
محبت خواب ہوتی جا رہی ہے
مِرے الفاظ تارے بن گئے ہیں
غزل مہتاب ہوتی جا رہی ہے
یہ کس کی تشنگی کا ہے کرشمہ
ندی پایاب ہوتی جا رہی ہے
لپیٹے میں نہ لے لے آسماں کو
زمیں گرداب ہوتی جا رہی ہے
سماعت ہو رہی ہے پارہ پارہ
زباں تیزاب ہوتی جا رہی ہے
سلیم اب ہوشمندی بھی تمہاری
جنوں کا باب ہوتی جا رہی ہے
سردار سلیم
No comments:
Post a Comment