ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا
ابھی تو وقت کے ہاتھوں سے کچھ لمحے چرانے ہیں
ابھی کچھ زخم تازہ ہیں جو اشکوں سے بہانے ہیں
بہت سی باتیں کرنی ہیں بہت سے دکھ سنانے ہیں
ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا
ابھی تو بادلوں کی چھاؤں میں کچھ دیر بیٹھیں گے
فضاؤں میں رچی یہ خوشبوئیں سانسوں میں کھینچیں گے
بنانے ہیں ابھی کچھ دائرے ندیا کے پانی میں
پھر ان ہی دائروں میں یاد کے دیپک جلانے ہیں
نئے کچھ شعر لکھے ہیں ترنم سے سنانے ہیں
ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا
بدلتے موسموں کی رُت مجھے اچھی نہیں لگتی
ہرے پتوں کی پیلاہٹ مجھے اچھی نہیں لگتی
کہ پت جھڑ کی ہواؤں سے مجھے وحشت سی ہوتی ہے
بہاروں سے یہ کہنا ہے ابھی کچھ دیر تو ٹھہریں
ابھی ان شوخ کلیوں کو ذرا کچھ اور مہکائیں
خزاں آئی تو جسم و جان کو بے جان کر دے گی
اداسی خوف بن کر روح کو ویران کر دے گی
سنو رک جاؤ کچھ دیر اور مجھ کو شاد رہنا ہے
مجھے بھی زندگی کی چاہ میں آباد رہنا ہے
ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا
راحت زاہد
No comments:
Post a Comment