Monday, 30 August 2021

ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا

 ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا

ابھی تو وقت کے ہاتھوں سے کچھ لمحے چرانے ہیں

ابھی کچھ زخم تازہ ہیں جو اشکوں سے بہانے ہیں

بہت سی باتیں کرنی ہیں بہت سے دکھ سنانے ہیں

ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا

ابھی تو بادلوں کی چھاؤں میں کچھ دیر بیٹھیں گے

فضاؤں میں رچی یہ خوشبوئیں سانسوں میں کھینچیں گے

بنانے ہیں ابھی کچھ دائرے ندیا کے پانی میں

پھر ان ہی دائروں میں یاد کے دیپک جلانے ہیں

نئے کچھ شعر لکھے ہیں ترنم سے سنانے ہیں

ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا

بدلتے موسموں کی رُت مجھے اچھی نہیں لگتی

ہرے پتوں کی پیلاہٹ مجھے اچھی نہیں لگتی

کہ پت جھڑ کی ہواؤں سے مجھے وحشت سی ہوتی ہے

بہاروں سے یہ کہنا ہے ابھی کچھ دیر تو ٹھہریں

ابھی ان شوخ کلیوں کو ذرا کچھ اور مہکائیں

خزاں آئی تو جسم و جان کو بے جان کر دے گی

اداسی خوف بن کر روح کو ویران کر دے گی

سنو رک جاؤ کچھ دیر اور مجھ کو شاد رہنا ہے

مجھے بھی زندگی کی چاہ میں آباد رہنا ہے

ابھی ٹھہرو کہ رخصت ہونے کا لمحہ نہیں آیا


راحت زاہد

No comments:

Post a Comment