Monday, 30 August 2021

اس کی محفل میں مرا نام نہیں ہو سکتا

 اس کی محفل میں مِرا نام نہیں ہو سکتا

اور پھر اتنا سر عام نہیں ہو سکتا

یہ تو پھر پھول کی قسمت ہے کھلے یانہ کھلے

اب بہاروں پہ تو الزام نہیں ہو سکتا

آپ جو مجھ سے مجھے مانگ رہے ہیں صاحب

دیکھئے آپ کا یہ کام نہیں ہو سکتا

اس کے آنے کا پتہ دیتی ہے خوشبو اس کی

وہ سمجھتا ہے کہ الہام نہیں ہو سکتا

اس کہانی میں تو کردار بدل جاتے ہیں

اس کہانی کا تو انجام نہیں ہو سکتا

اب مجھے نام سے جانیں ہیں ترے شہر کے لوگ

اس سے بڑھ کر تو میں بدنام نہیں ہو سکتا


شیراز غفور

No comments:

Post a Comment