تو پھر سچ کون بولے گا؟
اگرمیں سچ بولوں گا
مار دیا جاؤں گا
اگر تم سچ بولو گے
مار دئیے جاؤ گے
تو پھر سچ کون بولے گا؟
مجھے موت کا خوف نہیں
موت تو ایک پل ہے
جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے
موت تو ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
تو پھر موت سے خوف کیسا؟
خوف اس بات کا ہے
جس سچ سے مجھے موت آنی ہے
وہ سچ میرے بعد بھی زندہ رہے گا یا نہیں
اس سچ کو کوئی سچ مانے گا بھی یا نہیں
حیات اللہ ہوں یا محمد صلاح الدین
یا ان جیسے بہت سے دوسرے
ان کے سچ کو کس نے یاد رکھا؟
میرے سچ کو بھی کون یاد رکھے گا
سلیم احمد نے کہا تھا؛
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
کیا وہ بندۂ خدا میں ہوں؟
نہیں وہ کوئی اور ہے
وہ، وہ ہے جسے اپنے بچوں کا غم نہیں ہوتا
اس کی موت کے بعد
انہیں کون پالے گا؟
کون کھلائے گا؟
گود میں بٹھا کر کون پیار کرے گا؟
یہ غم اسے خوفزدہ نہیں کرتا
یہ اندیشہ اسے سچ بولنے سے روکتا نہیں
وہ بندۂ خدا کب آئے گا؟
اور یہ جو اللہ کے برگزیدہ بندے
سچائی کی راہ میں مارے گئے
جنہیں ان کے سچ نے گولیوں سے بھون دیا
خون میں نہلا دیا
ان کی سچائی کی قدر کتنے دلوں میں ہے
کیا یہ وہی صحرا میں اذان دینے والے تھے
مگر یہ صحرا، یہ پر ہول صحرا
اتنے سناٹے اور ویرانی سے بھرا کیوں ہے؟
کیا یہ اندھوں اور نابیناؤں کی بستی ہے
جو سن کر بھی لوگ نہیں سنتے
دیکھ کر بھی لوگ نہیں دیکھتے
ان کے سینوں میں دل ہیں یا پتھر
وہ خدا کی راہ میں نکلتے کیوں نہیں
ایک اور ہجرت ان پر واجب ہو چکی ہے
وہ کہتے رہے
ہم نے مدینے کی آرزو میں ہجرت کی تھی
ہمارے آباؤ اجداد نے گھر بار چھوڑا تھا
اور کٹی پھٹی لاشوں کو کندھوں پر اٹھائے یہاں پہنچے تھے
اب یہ مدینہ کربلا ہے
دونوں کے درمیان فاصلہ ہی کتنا ہے
نہ ہم بدلے، نہ دل بدلا، نہ دل کی آرزو بدلی’
‘ میں کیوں کر اعتبار انقلاب آسماں کر لوں
اے چرخ نیلی فام
آسمان سے سنگریزوں کی بارش برسا
ان ابابیلوں کو بھیج
جو چونچ میں کنکریاں دبائے آئیں
اور یہ کنکریاں انہیں ہی پیوست ہوں
جنہوں نے مدینے کو کربلا بنا دیا
کیونکہ
اگر میں سچ بولوں گا
مار دیا جاؤں گا
اگرتم سچ بولو گے تو مار دئیے جاؤ گے
اس لیے کہ
یہ یقین ہمارے اندر کمزور ہے
کہ مارنے والے سے بچانے والا طاقتور ہے
زندگی دینے والا
موت سے بچانے پر بھی قادر ہے
جنہوں نے سچائی کی خاطر موت کا جام پیا
وہ زندہ ہیں، وہ شہید ہیں
انہیں مردہ نہ کہو، تمہیں ان کی حقیقت کی خبر نہیں
یہ فرمان ہے میرے اللہ کا کہ
وہ جنت کے حسین باغوں میں ہیں
انہیں وہاں سے رزق مل رہا ہے
جس کا تم گمان بھی نہیں کر سکتے
تو پھر اے مالک
میرا عہد ہے کہ
میں سچ بولوں گا
خواہ سچائی کی راہ میں مار ہی کیوں نہ دیا جاؤں
کیا تم بھی سچ بولو گے؟
اگر سچ بولو گے
زندہ رہو گے
دلوں میں، خواہ یہ دل سہمے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں
سہمے ہوئے ڈرے ہوئے دلوں میں زندہ رہ جانے کا
خواب کتنا دلکش ہے
آؤ ہم مل کر سچ بولیں
ہمارا سچ ان کے جھوٹ پر غالب آئے گا
اور ایک دن
سچ بولتے بولتے ہم
ان پر بھی غالب آ جائیں گے
اگر میں سچ بولوں گا
اگر تم سچ بولو گے
وہ کتنوں کو ماریں گے
ایک دن مارتے مارتے خود بھی مر جائیں گے
تب خدائے واحد و قہّار
ہمیں ان کے سامنے پیش کرے گا
اور پوچھے گا ان سے
اگر تمہیں اب بھی اپنی طاقت پر گھمنڈ ہے
تو اب انہیں مار کر دکھاؤ
تب وہ کہیں گے
پاک پروردگار
ہم سے بھول ہوئی
وہ حق پر تھے اور ہم باطل
فرشتوں نے انہیں اپنے پروں میں چھپا رکھا تھا
ہم ان کے چہرے نہ پڑھ سکے
ہمیں معاف کر دیجیۓ؟
کیا خدائے واحد و قہّار انہیں معاف کر دے گا؟
ہاں توبہ کا دروازہ
اب بھی کھلا ہے
خدائے واحد و قہّار
اب بھی تمہاری توبہ کی دستک کا منتظر ہے
طاہر مسعود
No comments:
Post a Comment