Tuesday 31 August 2021

دیکھنے والوں کی دھڑکن میں خلل پڑتا ہے

دیکھنے والوں کی دھڑکن میں خلل پڑتا ہے

یہ جو گالوں میں تِرے یار! کنول پڑتا ہے

مجھ میں ہمت نہیں ہوتی سو تجھے ملنے کو

میرے اندر سے کوئی اور نکل پڑتا ہے

ایک رستہ مجھے منزل کی طرف جانے سے

ٹوکتا ہے تو کبھی ساتھ ہی چل پڑتا ہے

اس کے آنے کی تو امید نہیں پھر بھی یہ دل

دیکھ کر اٹھتی ہوئی دُھول اُچھل پڑتا ہے

وہ اگر آنکھ سے دو چار گرا دے آنسو

پھول کھلتے ہیں نہ پھر پیڑ پہ پھل پڑتا ہے

سوچتا ہوں کوئی تعویز کرا لوں شیراز

وصل کی راہ میں ہر بار جو کل پڑتا ہے


شیراز غفور


No comments:

Post a Comment