اندازِ گفتگو کا قرینہ نہ بُھولئے
علم و ادب کا ہے یہ خزینہ نہ بھولئے
اوصاف مصطفٰیﷺ کی جو تقلید ہو اگر
پھر زندگی کو شان سے جینا نہ بھولئے
ہر سانس عارضی ہے، نہیں موت سے مگر
ہر نفس کو یہ زہر ہے پینا نہ بھولئے
موجوں کی سرکشی سے جو ہوں آشنائیاں
طوفاں سے بچ رہے گا سفینہ نہ بھولئے
گوہر شناس نظروں سے جوہر کو ڈھونڈئیے
ملتا ہے پتھروں میں نگینہ نہ بھولئے
اس دہر میں ہو راحت ہستی کی گر طلب
ہے در گزر ہی اولیں زینہ نہ بھولئے
راحت زاہد
No comments:
Post a Comment