ہے کچھ اگر سلیقہ ہے کچھ اگر قرینا
مرنے کی طرح مرنا جینے کی طرح جینا
کرتا ہوں پار دریا طوفان کی مدد سے
میری نگاہ میں ہے ہر موج اک سفینا
اس میں بھی روشنی ہے اس میں بھی روشنی تھی
میرا بھی ہے وہ سینہ موسیٰ کا تھا جو سینا
جس سمت سر جھکاؤں گلشن عرق عرق ہو
مہکے مِری جبیں سے ہر پھول کا پسینا
پرہیز کس لیے پھر جب رائے ہے یہ سب کی
جائز ہے اے منور تم کو شراب پینا
منور لکھنوی
منشی بشیشور پرشاد
No comments:
Post a Comment