Monday 30 August 2021

بکھرا ہوں جب میں خود یہاں کوئی مجھے گرائے کیوں

 بکھرا ہوں جب میں خود یہاں کوئی مجھے گرائے کیوں

پہلے سے راکھ راکھ ہوں پھر بھی کوئی بجھائے کیوں

عیسیٰ نہ وہ نبی کوئی ادنیٰ سا آدمی کوئی

پھر بھی صلیب درد کو سر پہ کوئی اٹھائے کیوں

سارے جو غمگسار تھے کب کے رقیب بن چکے

ایسے میں دوستوں کوئی اپنا یہ غم سنائے کیوں

یکتا وہ ذاتِ اکبری دل یہ حقیر و اصغری

اتنی وسیع شے بھلا دل میں مِرے سمائے کیوں

پلتا ہمارے خوں سے ہے عشق مگر عدو سے ہے

اپنا نہیں جو بے وفا ہم کو یوں آزمائے کیوں

صبح کا وقت آئے تو خود ہی بجھے گا یہ چراغ

اس کو سحر سے پیشتر کوئی مگر بجھائے کیوں

جس پر گری ہے برق بھی جس پہ ہوا کی ہے نظر

شاخوں میں ایسی اے سحاب گھر بھی کوئی بنائے کیوں


اجے سحاب

No comments:

Post a Comment