ہم سے تھے سب ہی خفا سو چلے آئے گھر سے
کیسے بھولیں گے وہ آزار جو پائے گھر سے
روک لیتی ہے انا چار قدم چلتے ہی
یوں نہ لوٹیں گے منانے کوئی آئے گھر سے
دلِ ناکام کو تو اب بھی یہی حسرت ہے
کوئی اس کے لیے آنسو ہی بہائے گھر سے
اس ستم گر نے مجھے زخم دیا ہے ایسے
وار کرتی ہو بلا جیسے پرائے گھر سے
جسے ملنے کی تمنا میں رُکی ہیں سانسیں
وائے حسرت کوئی اس کو تو بلائے گھر سے
ہر طرف شور ہے ماتم کی صدا آتی ہے
کب ٹلیں گے یہ سیہ موت کے سائے گھر سے
آگ نفرت کی تِرا گھر بھی جلا سکتی ہے
دوسروں کو جو جلاتی نظر آئے گھر سے
حادثوں سے نہیں محفوظ خدا کا گھر بھی
پھر بھی دو چار نمازی نکل آئے گھر سے
دوڑ مادے کی اگر یوں نہ تھکائے ہم کو
بے سکونی کی وبا بھی چلی جائے گھر سے
ڈگریاں بکنے لگیں زر کے عوض مکتب میں
علم کا جو بھی خریدار ہے آئے گھر سے
زرقا مفتی
No comments:
Post a Comment