Monday 30 August 2021

ہمارا نام وہ بھی ان کے لب سے نکلا ہے

 ہمارا نام وہ بھی ان کے لب سے نِکلا ہے

سنا ہے ہم نے بڑے ہی ادب سے نکلا ہے

ہر ایک آنکھ اسے تک رہی ہے حسرت سے

کچھ ایسے حسنِ مجسم وہ ڈھب سے نکلا ہے

کوئی ملال نہیں گر بچھڑنے کا تجھ کو

یہ اشک آنکھ سے پھر کس سبب سے نکلا ہے

وہ معتبر ہوا دونوں جہان میں یکساں

مِرے حضور کے جو لفظ لب سے نکلا ہے

کبھی خدا سے تجھے مانگا ہی نہیں میں نے

کہاں وگرنہ تُو دستِ طلب سے نکلا ہے

ہے ایک بار بھی آیا نہیں مجھے ملنے

دیار چھوڑ کے ظالم وہ جب سے نکلا ہے

سیاہ رات سے گھبرانے والے دیکھ ذرا

یہ آفتاب جو نکلا ہے شب سے نکلا ہے

پتہ بتا رہی ہیں تیری لرزشیں راحل

خمیر تیرا بھی آدم نسب سے نکلا ہے


علی راحل

No comments:

Post a Comment