موت کے لیے ایک نظم
میں اب مرنا چاہتا ہوں
مرتے وقت
اور مرے ہوئے
میں ان قدروں کی پامالی کا تجربہ اُدھار لوں گا
زندگی جن کے لیے مجھے شرمسار کرتی رہی
موت روزانہ میرے سامنے
ایک اندوہ کیفیت میں ڈھلتی ہے
میں اس کی شِدت کا رس چکھنے سے محروم رہتا ہوں
میں مر کے پھر زندہ ہونا چاہتا ہوں
زندگی کو اس احساس کا نغمہ دینے کے لیے
میرے آنسو
جس کی نمکینی کی لذّت
اپنے اندر گھولنے کی حسرت میں
خُودکشی کرتے پکڑے جاتے تھے
قاسم یعقوب
No comments:
Post a Comment