Tuesday, 31 August 2021

نظر انداز مجھ کو کر رہے ہو

 نظر انداز مجھ کو کر رہے ہو

یقیناً تم کسی سے ڈر رہے ہو

کہا جب یار نے تو ڈوب جاؤ

تعجب ہے ابھی تم تر رہے ہو

زباں کے آبلے جلدی سے پھوڑو

بحث کرنے کو تم جو مر رہے ہو

میداں میں تو بڑی جرأت سے آئے

ہمیں دیکھا تو خود ہی ہر رہے ہو

نا جانے کب وہ مجھ سے کہے گا

سخن میرے کا تم ہی زر رہے ہو

مہک پہلی سی اب کہ کیوں نہیں ہے

ہمارے بعد کس کس در رہے ہو

اٹھا لایا ہوں وہ تصویر جس کے

سبب کہتا تھا میرے گھر رہے ہو

پارسائی کا ابھی ہو خوب پیکر

جگر پر کیا غضب کا شر رہے ہو


مطیم جگر

No comments:

Post a Comment