Tuesday, 31 August 2021

ناشاد تھا ناشاد ہے معلوم نہیں کیوں

ناشاد تھا ناشاد ہے معلوم نہیں کیوں

دل عشق میں برباد ہے معلوم نہیں کیوں

دیکھا تھا کبھی خواب حسیں میں نے بھی اے دوست

اتنا تو مجھے یاد ہے معلوم نہیں کیوں

باقی ہے ابھی طول شب ہجر کا عالم

دل شام سے ناشاد ہے معلوم نہیں کیوں

برباد ہوا جس کے تغافل سے مِرا دل

دل میں وہی آباد ہے معلوم نہیں کیوں

ہر چند کہ دل کشتۂ بیداد ہے، لیکن

نالہ ہے نہ فریاد ہے معلوم نہیں کیوں

جو سب کے لیے لطف و عنایت کا ہے پیکر

میرے لیے جلاد ہے معلوم نہیں کیوں

میں بھی کہیں آباد تھا یہ یاد نہیں ہے

مجھ میں کوئی آباد ہے معلوم نہیں کیوں

اے درد! قفس میں بہت آرام ہے لیکن

گلشن کی فضا یاد ہے معلوم نہیں کیوں


عبدالمجید درد بھوپالی

No comments:

Post a Comment