Sunday, 29 August 2021

حسن آیا ہے بازار تک بات پہنچے خریدار تک

 حسن آیا ہے بازار تک

بات پہنچے خریدار تک

ہم نے ہتھیار ڈالے نہیں

گر گئی سر سے دستار تک

کون اترا ہے میدان میں

خوف میں ہے جو سالار تک

سگ بنے دیکھو ایوان کے

خود پرست اور خود دار تک

سر زرا کیا جھکا، دنیا کے

ہاتھ پہنچے ہیں دستار تک

راست بازی و حق گوئی ہی

آج لائی مجھے دار تک

ہفتہ بھر دل تڑپتا رہا

وعدے پر ان کے اتوار تک

حسن آئے عیادت کرے

ہو گیا عشق بیمار تک

میرے الفاظ لہجہ نہیں

اس کو ازبر تھے اشعار تک

بیٹا آیا نہ اس بار بھی

منتظر ماں تھی تہوار تک

ایک دوجے کی کر کے مدد

چیونٹیاں پہنچیں انبار تک

لادے خاکِ درِ جانِ جاں

کوئی مسرور بیمار تک


مسرور نظامی

No comments:

Post a Comment