حسن آیا ہے بازار تک
بات پہنچے خریدار تک
ہم نے ہتھیار ڈالے نہیں
گر گئی سر سے دستار تک
کون اترا ہے میدان میں
خوف میں ہے جو سالار تک
سگ بنے دیکھو ایوان کے
خود پرست اور خود دار تک
سر زرا کیا جھکا، دنیا کے
ہاتھ پہنچے ہیں دستار تک
راست بازی و حق گوئی ہی
آج لائی مجھے دار تک
ہفتہ بھر دل تڑپتا رہا
وعدے پر ان کے اتوار تک
حسن آئے عیادت کرے
ہو گیا عشق بیمار تک
میرے الفاظ لہجہ نہیں
اس کو ازبر تھے اشعار تک
بیٹا آیا نہ اس بار بھی
منتظر ماں تھی تہوار تک
ایک دوجے کی کر کے مدد
چیونٹیاں پہنچیں انبار تک
لادے خاکِ درِ جانِ جاں
کوئی مسرور بیمار تک
مسرور نظامی
No comments:
Post a Comment