صندل و عنبر و لوبان نہیں ہے گھر میں
سرخوشی کا کوئی سامان نہیں ہے گھر میں
مسئلہ ایک بھی آسان نہیں ہے گھر میں
بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے گھر میں
باپ کا سر سے مِرے سایہ اُٹھا ہے جب سے
ایسے لگتا ہے نگہبان نہیں ہے گھر میں
کیا حسیں دور تھا گھر میں تھے کتابوں کے ہجوم
اب تو غالب کا بھی دیوان نہیں ہے گھر میں
کس طرح آپ کو گھر آنے کی دعوت دے دوں
کچھ بھی تو آپ کے شایان نہیں ہے گھر میں
اتنی فرمائشیں آئیں کہ اسے کہنا پڑا
گھر ہے ملتان میں ملتان نہیں ہے گھر میں
داد شعروں پہ مِرے کیسے کوئی دے شاہیں
ایک بھی سچا قدر دان نہیں ہے گھر میں
شاہین بیگ
No comments:
Post a Comment